امام احمد رضاؒ کی ہمہ جہت حیات و صفات

جسٹس میاں محبوب احمد 
    برصغیر کی تاریخ میں جب بھی عزم وثبات، فکر وعمل اور محبت ویقین کی تاریخ رقم کی جائے گی تواعلیٰ حضرت مولانا احمدرضا خاںؒ کا اسم گرامی باب اول میں زریں حروف سے رقم ہوگا۔ تاریخ کیا ہے؟ یہی کہ افراد کے کردار کا تذکرہ اور اقوام کی کاوشوں پر تبصرہ۔ تاریخ افراد کا بیان کرتی ہے مگر کائنات ارضی میں بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں تاریخ اپنی تعمیر وزینت کے لیے برائے مدد پکارتی ہے۔ امام احمدرضاؒ کی حیات اوران کی ہمہ جہت شخصیت کی صفات کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ان کے قرآنی فہمی سے لے کر شعر گوئی تک کے موضوعات ایک جہان نولیے ہوئے ہیں۔ وہ مترجم کی حیثیت میں ہوں تو شعور اور زبان وبیان کا ایک دبستان جدید نظر آتے ہیں۔ جب محدث کی حیثیت سے دیکھیں تو امام نووی، امام عسقلانی، امام قسطلانی اور امام سیوطی یاد آجاتے ہیں۔ فقہ میں ابوحنیفہ اور ابویوسف کے کرم توجہ سے کشکول فکر بھرے نظر آتے ہیں۔ علم کلام میں امام رضا ابومنصور ماتریدی اور اشاعرہ کے آئمہ وقت اور دقت نظری کا نمائندہ ہیں۔ منطق وفلسفہ کا میدان امام کی شہسواری فکر سے پامال ہے اور ارباب دانش یونان امام احمدرضا کے باج گزار ہیں۔ علوم معقول ومنقول کا کونسا شعبہ ہے۔ جس میں اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ درجہ اجہتاد پر فائز نہیں ہیں۔ اخلاق وعمل، غیرت وحمیت ملی ان کی ذات کے نرالے پہلو ہیں۔اصابت فکر میں عکس صدیق ہے۔ حمیت دین میں دبدبہ فاروقی سے مزین ہیں۔علم تقویٰ میں رنگ عثمانی جھلکتا ہے۔ فقر وشجاعت میں یہ فقر علی ہیں(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ اعلیٰ حضرت کی ذات ایثار نفسی میں دین کے لیے ایسی ڈھال ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے ایمان کی عملی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت کی جامع شخصیت کا ہر پہلو مومنانہ اور ہرانداز مجاہدانہ ہے۔ مسلمانوں کی ہر میدان میں ان کی رہنمائی بروقت اور فراست سے معمور تھی۔1857ءکی جنگِ آزادی میں برِصغیر کا ہر شہر میدان کا رزاربن گیا تھا، انگریزوں نے اپنی فتح کے بعد قتل وغارت کا بازار گرم کردیا تھا۔علمائ، ومشائخ کا قتل عام ہوا، شعائر اسلام کی توہین ہوئی، اہل اسلام کی املاک ضبط کرلی گئیں۔ پورپ نے اس غارت گری پر ہی اکتفاءنہ کیا بلکہ اس کے مذموم مقاصد میں یہ کوشش بھی شامل تھی کہ مسلمانوں کو ان کی تہذیبی اقدار، دین سے وابستگی، اللہ اور اس کے رسول سے بے پایاں محبت اورجذبہ جہادسے محروم کردیا جائے ۔امام احمدرضا کی ہمہ پہلو ذات نے اس مشکل میں کس انداز سے حالات سے پنجہ آزمائی فرمائی۔جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کے الفاظ میں:
 ”کہ جس کے مقدر میں تمام داخلی اور مذہبی فتنوں سے نبردآزما ہونا لکھا تھا اور اس کے لیے یہ فریضہ چنا گیا کہ وہ پیکر حسن وجمال، منبع فضل وکمال، مصدر کرم ونور حضرت محمد مصطفیٰکی بارگاہ کی جانب ملت کا رُخ کردیں“۔ ایک اندازے کے مطابق حضرت امام کو70کے قریب علوم وفنون پر دسترس حاصل تھی۔ علوم جدید ریاضی، لوگارتھم اور فزکس میں بہت بلند مرتبہ محقق ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاالدین وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آپ سے علوم ریاضی پر گفتگو کے بعد بے ساختہ یہ اعتراف کیا کہ: ”علم لدنی کے بارے میں سنا تھا۔ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا“۔حضرت امام احمد رضا کو علوم شرعیہ میں بے پناہ دسترس حاصل تھی۔ شجرہ علمی نے ہمیشہ ہی ملت اسلامیہ کی دستگیری فرمائی۔ اکابرین ملت اور زعماءقوم اس اعتراف پر متفق ہیں کہ امام احمدرضا علوم کی جامعیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں:
 ”ہندوستان کے دورِ آخر میں مولانا احمدرضا خاں جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا۔ مولانا اپنی رائے پختہ انداز میں قائم کرتے اور پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔ مولانا احمدرضا اپنے دور کے امام ابوحنیفہ تھے“۔
 مولانا کی علمی گہرائی پر جسٹس ملک غلام علی صاحب کی رائے سماعت فرمائیے: ”جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی ہے۔ وہ بہت کم علماءمیں پائی جاتی ہے۔ عشقِ خدا اور رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹتا ہے“۔
عبدالحئی لکھنوی یوں گویا ہیں:
”فقہ حنفی اور اس کی جزائیات پر عبور کے سلسلے میں ان کا کوئی بھی ہم عصر ان کا ہم پلہ نہیں“ اس پر ان کی کتاب ”کفل الفقیہ“ شاہد ہے۔
 شاہ معین الدین ندوی نے یوں اعتراف کیا کہ: ”ان کے عالمانہ، محققانہ فتاویٰ مخالفین اور موافقین سب ہی کے لیے قابل مطالعہ ہیں“۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی علمی جداگانہ شان یہ ہے کہ آپ سے اکثر سوالات جلیل القدر علماءنے فرمائے ہیں۔ مسئلے کو اس وضاحت سے بیان فرماتے کہ سائل کی تشنگی ختم ہوجاتی ہے۔ اعلیٰ عدالتیں بھی ان سے راہنمائی حاصل کرتی تھیں۔ وصیت کے مسئلے میں66صفحات پر مشتمل فتویٰ چیف کورٹ بہاولپور ارسال فرمایا تھا۔وسعت نظر ی ایسی کہ ایک مرتبہ علماءنے مسلمان تعلیمی اداروں کو سرکاری گرانٹ لینے سے منع کردیا۔ امام احمدرضا نے اس بندش کو نادرست قرار دیا اور فرمایا کہ گورنمنٹ ہم سے ٹیکس لیتی ہے۔ ہم کیوں نہ گرانٹ لیں اور اس مسئلے پر ایک مدلل کتاب رقم فرمائی۔امام احمد رضا نے مسلمانوں کی اجتماعی حیات کے لیے جو آئین بنایا اس کی بنیاد رسول اللہ سے وفاداری غیر مشروط پر رکھی۔ وہ فرنگی وہندی چنگیزیت کا مقابلہ مصطفویت کے اس نور سے کرنا چاہتے ہیں جہاںشراربولہیت کا وہم بھی نہ گزرسکے۔اقبال و رضا کا نظریہ رجوع ملت اسلامیہ کے درد کا درماں ہے۔ اسی نظریہ پر عمل پیرائی ہماری نجات کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن