امریکہ اور بھارت کی منافقت کا شاہکار جی ٹونٹی اجلاس۔

Sep 12, 2023

نصرت جاوید


برملا (نصرت جاوید )     
سپرطاقتوں کی منافقت بھی ڈھٹائی کی انتہاﺅں کو چھونے کی حد تک ”سپر“ بن جاتی ہے۔عالمی معیشت کے اجارہ دار قرار پائے 20ممالک کا حال ہی میں بھارت میں ہوا اجلاس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ روسی صدر اس میں شریک نہیں ہوا۔اسے خدشہ تھا کہ مذکورہ اجلاس کے دوران اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور اس کے حواری ممالک یوکرین کے خلاف اس کی جانب سے گزشتہ کئی مہینوں سے جاری جنگ کے بارے میں احتجاجی شورشرابا اکسانے کی کوشش کریں گے۔ چینی صدر بھی بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے غیر حاضر رہے۔ روسی اور چینی صدور کی عدم موجودگی نے بھارتی میزبانوں کو اس فکر میں مبتلا کردیا کہ جی ٹونٹی کا اجلاس اہم ترین مسائل کی بابت ”متفقہ“ فیصلے نہیں لے پائے گا۔یہ گھبراہٹ بھی لاحق رہی کہ امریکی صدر روسی اور چینی صدور کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ اجلاس میں شامل سربراہان مملکت کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا کہ روس کی یوکرین کے خلاف کئی مہینوں سے جاری جنگ کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی جائے۔یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ مذکورہ جنگ کی بنیادی وجہ روس کے یوکرین کے خلاف سامراجی عزائم ہیں۔اجلاس کے آخری لمحات تک تاثر لہٰذا یہ ملتا رہا کہ ”متفقہ“ قرار دادیں منظور کروانے میں ناکامی کے سبب دلی میں ہوا اجلاس بالآخر ”نشستند،گفتند،برخاستند“جیسی مشق رائیگاں ہی دکھائی دے گا۔
جی ٹونٹی کا اجلاس شروع ہوتے ہی مگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سینہ پھلاکر دنیا کو یہ ”خوش خبری“ دی کہ سفارتکارانہ فراست ومہارت کی بدولت کانفرنس کا ”مشترکہ اعلامیہ“ اس کے شروع ہونے سے قبل ہی اتفاق رائے سے تیار کرلیا گیا ہے۔”متفقہ“ طورپر تیار ہوئے اعلامیہ میں یوکرین کے خلاف جاری جنگ کے خلاف محض تشویش کا اظہار ہوا۔ اس جنگ کا ذمہ دار کون ہے اس کے بارے میں البتہ منافقانہ خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی۔ منافقت کا بھرپور اظہار کرتے اس ”اعلامیے“ کو بعدازاں بھارتی میڈیا نے اپنے وزیر اعظم اورسفارت کاروں کی ”اجتماعی بصیرت“ کا ڈھنڈوراپیٹنے کے لئے استعمال کیا۔
امریکی صدر کی موجودگی میں روس کے مذمتی ذکر سے اجتناب میرے لئے حیران کن تھا۔ گزشتہ برس کے فروری میں روس یوکرین پرچڑھ دوڑا تھا۔ اس دن سے آج تک بائیڈن انتظامیہ روس پر ہوئے حملے کو ”جمہوری ممالک اور نظام“ پر حملہ شمار کرتی ہے۔ یوکرین کو روس کی مزاحمت کے لئے اربوں ڈالروں کے علاوہ جدید ترین ہتھیار بھی دئے گئے ہیں۔ یورپی ممالک کو مجبور کیا گیا کہ وہ روس سے پٹرول،ڈیزل اور گیس کا ایک قطرہ بھی نہ خریدیں۔ یورپی ممالک نے غلامانہ تعمیل کی تو وہاں کے غریب اور متوسط طبقات کی زندگیاں اجیرن ہوگئیں۔کئی گھروں میں بجلی کے جو بل آتے ہیں وہاں کے مکینوں کی ماہانہ آمدنی سے تقریباََ آدھے ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھورہی ہیں۔
یورپی ممالک کے برعکس بھارت روس سے ”عالمی مارکیٹ“ میں بھیجا تیل مسلسل خرید رہا ہے۔اسے یہ تیل عالمی منڈی کے نرخوں کے مقابلے میں نسبتاََ سستے داموں مل جاتا ہے۔خام تیل کے جو جہاز یورپ نہ جاسکیں انہیں بھارت موڑ دیا جاتا ہے۔وہاں روس نے کئی برس قبل بھارتی حکومت کی شراکت کے ساتھ ایک ریفائنری بھی لگارکھی ہے۔یورپ میں روسی تیل پر پابندی کی وجہ سے بھارت منتقل ہوا خام تیل اس ریفائنری جاکر ”صاف “ہوجاتا ہے۔اس میں سے ”ڈیزل“ کی کافی مقدار بھی الگ کرلی جاتی ہے۔روس سے آیا یہ خام تیل بھارت میں لگی ریفائنری میں ”صاف“ یا ڈیزل میں تبدیل ہوجانے کے بعد ”میڈاِن انڈیا“ ہوجاتا ہے جس کی کافی مقدار گزشتہ کئی مہینوں سے یورپ کے نسبتاََ غریب ممالک کو بیچی جارہی ہے۔بائیڈن انتظامیہ نے ایک بار بھی بھارت سے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ وہ روس کا اقتصادی مقاطعہ کرنے کو آمادہ کیوں نہیں ہورہا۔ روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے غیر جانبداری کیوں اختیار کررہا ہے۔آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہوتے ہوئے بھی یوکرین جیسے”جمہوری“ملک کی حمایت میں روس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا کیوں نہیں ہورہا۔اس ضمن میں امریکہ کی جانب سے اپنائی منافقت کی کلیدی وجہ چین ہے جس کے مقابلے کے لئے بھارت کی دل وجان سے سرپرستی ہورہی ہے۔ 
اقتصادی مشکلات میں گھرے پاکستان جیسے ممالک اپنے تئیں اس قابل نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے روس-یوکرین جنگ کے تناظر میں بھارت کے ساتھ اپنائے رویے پر سوالات اٹھاسکیں۔فرانس اور جرمنی مگر یورپ کے طاقت ور ترین ممالک ہیں۔ان کی جانب سے مذکورہ تناظر میں اپنائی جی حضوری مجھے حیران کردیتی ہے۔
یوکرین کو ”جمہوریت کی علامت“ پکارتے ہوئے اس کی حفاظت کو ڈٹا امریکہ خود کو دنیا بھر میں آزادی صحافت اور انسانی حقوق کے دفاع کا بھی مہا چوکیدار بناکر دکھاتا ہے۔ جوبائیڈن کے چہیتے نریندرمودی کو مگر یہ دونوں موضوعات ”عجب“ سنائی دیتے ہیں۔ وہ صحافیوں کے ہجوم میں کھڑے ہوکر ان کی جانب سے براہ راست اٹھائے سوالات کا جواب دینے کا عادی نہیں۔امریکی صدر ایسی ”بادشاہی“ کا مگر متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہاں کی روایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے جوبائیڈن کے ہمراہ بھارت آئے امریکی صحافیوں کو قوی امید تھی کہ جی ٹونٹی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر اوربھارتی وزیر اعظم کسی مشترکہ کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ اس کے دوران انہیں مودی سے بھارت میں انسانی حقوق کی بابت سولات اٹھانے کا موقعہ مل جائے گا۔
بھارت پہنچتے ہی مگر بائیڈن کے ہمراہ آئے صحافیوں کو واضح طورپر بتادیا گیا کہ امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم مشترکہ طورپر کسی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کریں گے۔ بھارتی اور غیر ملکی صحافیوں کی رسائی جی ٹونٹی کے اجلاس اور اس کے شرکاءتک بہت محدود رکھی گئی۔دہلی میں جمع ہوئے صحافیوں نے جی ٹونٹی کے اجلاس کے حوالے سے تمامتر ”معلومات“ درحقیقت بھارت کے سرکاری طورپرچلائے دوردرشن ہی سے حاصل کیں۔ امریکہ کے بہت دھانسو تصور ہوتے نیویارک ٹائمز،واشنگٹن پوسٹ اور سی این این جیسے ادارے ٹھوس اطلاعات تک عدم رسائی کے حوالے سے پنجابی محاورے والا ”دڑوٹ“گئے۔چند اداروں نے اگرچہ ”حساب برابر“ کرنے کے لئے ایسی ”خبریں“ دی ہیں جو بتاتی ہیں کہ جی ٹونٹی کے اجلاس کے دوران دلی کو ”صاف ستھرا“ اور جدید ترین شہردکھانے کے لئے بے شمار کچی بستیوں کوسفاکی سے مسمار کردیا گیا اور کیسے ”غریب محلوں اور علاقوں“ کو دیوقامت قناتوں کے پیچھے چھپاکر دلی کو ”دل کش“ شہر دکھانے کی کوشش ہوئی۔
بھارت میں قیام کے دوران بائیڈن کو سچ بولنے کی جرات نہ ہوئی۔نہ ہی اس نے اپنے تئیں امریکہ سے آئے صحافیوں سے ازخود رابطے کی ہمت دکھائی۔بھارت سے وطن لوٹتے ہوئے البتہ وہ ویتنام رکاتو وہاں حسب روایت مقامی اور عالمی صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے کے لئے پریس کانفرنس میں کھڑا ہوگیا۔وہاں اس نے بہت محتاط الفاظ میں یہ اطلاع دی کہ بھارتی وزیر اعظم سے نجی ملاقاتوں کے دوران وہ اس کے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہوئے سلوک اور انسانی حقوق کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے سے باز نہیں رہا۔ اس کی ویت نام میں ہوئی گفتگو مجھے تو عذر گناہ کی طرح گناہ سے بھی بدترمحسوس ہوئی۔ اصل حقیقت مگر یہ ہے کہ سپرطاقتوں کے ٹھوس مفادات ہوتے ہیں۔ان کا ”انسانی حقوق“ جیسے شاعرانہ خیالات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ان مفادات کے حصول کے لئے سپرطاقتیں اکثر اپنے نام نہاد ”اصول“ بھلاکر محاورے والے ”شیطان“ سے بھی دوستی کو آمادہ ہوجاتی ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین نے اسی وجہ سے ان دنوں بائیڈن -مودی کو بھائی بھائی بنارکھا ہے۔

مزیدخبریں