چودھری صفدر علی اور یادوں کی سلگتی چنگاری

معصوم‘ سادہ‘ سچا‘ کھرا اور کچھ اکھڑ مزاج۔ یہ تھے ہمارے 1977ءاسے اب تک کے دیرینہ دوست چودھری صفدر علی بندیشہ۔ ہفتے کے روز وہ طویل علالت کے بعد اپنی زندگی کی آخری ہچکی لے کر عدم آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔ انکے بیٹے جمیل صفدر نے وٹس ایپ پیغام کے ذریعے اپنے والد کے خالق حقیقی کو جا پہنچنے کی اطلاع دی تو جہاں اس سانحہ کی خبر سن کر دل کو جھٹکا لگا وہیں چودھری صفدر علی بندیشہ سے وابستہ 47 سال کی یادوں کا دفتر کھل گیا۔ 
یہ غالباً ستمبر 1977ءکی بات ہے‘ بھٹو حکومت کو ٹوپل کرنے کے بعد جنرل ضیاءالحق نے اپنی مارشل لاءکی حکمرانی کی عوام میں قبولیت کے راستے نکالنا شروع کئے جن میں پی این اے کی جماعتوں کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دینا بھی شامل تھا تو اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے جماعت اسلامی‘ پاکستان جمہوری پارٹی‘ تحریک استقلال‘ جمعیت علماءپاکستان اور پیرپگارا کی فنگشنل لیگ مارشل لاءحکومت کا حصہ بن گئیں۔ ان میں سے ہر جماعت کے حصے میں ایک ایک‘ دو دو وزارتیں آگئیں۔ تحریک استقلال کی جانب سے وزارت کیلئے قرعہ فال مخدوم جاوید ہاشمی کے نام نکلا جن کیلئے جناب مجیب الرحمن شامی کی سفارش بھی کافی تگڑی تھی۔ تحریک استقلال کے قائد ایئرمارشل اصغر خان کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ انکی ضیاءالحق کے ساتھ نبھ نہیں پائے گی چنانچہ انہوں نے ضیاءحکومت کو خیرباد کہہ کر قومی سیاست میں اپنے الگ تشخص کو تسلیم کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس کیلئے انہوں نے سابق معروف اور اس وقت کے ڈمی روزنامہ آزاد کو خرید کر تحریک استقلال کے ترجمان اخبار کے طور پر میکلوڈ روڈ کے پچھواڑے سے اس کا اجرا کیا۔ عباس اطہر صاحب اسکے ایڈیٹر مقرر ہوئے جنہوں نے مجھے بطور ہائیکورٹ رپورٹر منتخب کرلیا۔ چونکہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف نواب محمد احمد خاں کے مقدمہ¿ قتل کی سماعت شروع ہو چکی تھی‘ اس لئے پرنٹ میڈیا کیلئے ہائیکورٹ کی بیٹ انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس بیٹ کیلئے میرا انتخاب اس لئے عمل میں آیا کہ اسی سال مجھے پنجاب یونیورسٹی لاءکالج سے قانون کی ڈگری حاصل ہوئی تھی۔ 
اس اہم ”بیٹ“ سے وابستہ یادوں کا تذکرہ کسی اگلے کالم کیلئے چھوڑتے ہوئے میں روزنامہ آزاد سے شروع ہونیوالے اپنے صحافتی سفر کے دوسرے مرحلہ کو ہی اس کالم میں فوکس کروں گا۔ اس وقت تحریک استقلال کی جانب سے انتظامی معاملات میں جن شخصیات کا اس اخبار میں عمل دخل تھا‘ ان میں ملک وزیرعلی‘ رحیم یار خان کے نذیر احمد گھلو اور چودھری صفدر علی بھی شامل تھے جو اس وقت تحریک استقلال لاہور کے صدر تھے۔ تحریک استقلال پنجاب کے نائب صدر کی حیثیت سے میاں نوازشریف کا بھی ”آزاد“ کے دفتر میں آنا جانا لگا رہتا تاہم وہ انتہائی شرمیلے تھے اور آزاد کے سٹاف سے ملاقات سے بالعموم گریز ہی کرتے تھے۔ اسی دوران چودھری صفدر علی کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بے تکلف دوستی میں بدل گیا۔ وہ آزاد کیلئے گاہے بگاہے مضامین بھی لکھ لیا کرتے تھے جبکہ میرے کالم نگاری کے سلسلہ کا بھی آزاد ہی میں آغاز ہوا۔ عباس اطہر صاحب نے مہربانی کی اور ہائیکورٹ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ادارتی صفحے پر ”سرگوشیاں“ کے نام سے میرا کالم بھی روزانہ کی بنیاد پر شروع کرا دیا۔ چودھری صفدر علی کے ساتھ میری ہم آہنگی کالم نگاری کے ناطے سے بھی استوار ہوئی۔ وہ رائل پاک میں ایک فلمی دفتر کے منیجر تھے اور سیاست کا شوق پورا کرنے کیلئے تحریک استقلال میں شامل ہو گئے تھے۔ ہمارے برادرانہ تعلقات اتنے استوار ہوئے کہ دفتر سے فارغ ہوتا تو رائل پاک میں انکے دفتر میں آجاتا۔ یہ دفتر بہاولنگر کے ایک سینما مالک چودھری محمد اکرم کا تھا جنہیں فلم سازی کا شوق لاہور لے آیا اور انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر رائل پاک میں فلمی دفتر قائم کیا۔ انکے فلمی ادارے نے ”ذیلدار“ اور ”امر‘ اکبر‘ انتھونی سمیت متعدد معروف فلمیں بنائیں۔ ان کے ہدایت کار بالعموم حیدر چودھری ہی ہوتے تھے جن کا نام کسی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت پنجابی فلموں میں سلطان راہی‘ مصطفی قریشی‘ یوسف خان کا بطور ہیرو اور ولن اور علاﺅالدین کا بطور کریکٹر ایکٹر طوطی بولتا تھا۔ 
چودھری صفدر کے ناطے میرے چودھری محمد اکرم کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم استوار ہو گئے اور انکے آفس آنیوالے اس وقت کے معروف ہیروز بشمول علاﺅالدین میری دوستی کے بندھن میں آگئے۔ حیدر چودھری کا دفتر بھی رائل پارک میں ہی تھا چنانچہ انکے ساتھ بھی اکثر گپ شپ رہتی۔ اس وقت اداکارہ نغمہ پنجابی فلموں کی معروف ہیروئن تھیں جن کے ساتھ ملاقات انکے گھر مسلم ٹاﺅن میں چودھری صفدر علی کے ناطے ہی سے ہوئی۔ تقریباً ایک سال بعد ہی ”آزاد“ زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا جس کا انتظام تحریک استقلال کے نائب صدر اور سابق بیوروکریٹ آصف فصیح الدین وردگ نے بطور منیجنگ ڈائریکٹر سنبھالا مگر اسکے مالی معاملات انکی گرفت سے بھی باہر نکل گئے چنانچہ یہ اخبار جس سج دھج سے دنیائے صحافت میں نمودار ہوا تھا‘ اس کا سورج غروب ہونے میں بھی کوئی دیر نہ لگی مگر چودھری صفدر علی کے ساتھ دوستی کا جو بندھن بندھا تھا‘ اسکی گرہیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئیں۔ انہوں نے بیڈن روڈ پر ایک فلیٹ نما گھر بھی خرید لیا تو انکے گھر بھی ہماری محفلیں جمنے لگیں۔ 
اس دوران اصغر خان سیاست میں اپنا الگ راستہ اختیار کر چکے تھے جن کے پرائیویٹ سیکرٹری ضیاءالدین ضیائی کے ساتھ دوستی کے ناطے چودھری صفدر علی کی اصغر خان کے ساتھ قربت بھی ہو گئی اور وہ تحریک استقلال کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات بن گئے۔ میڈیا میں تحریک استقلال کی ترجمانی چودھری صفدر علی ہی کیا کرتے تھے۔ ملک حامد سرفراز اس وقت تحریک استقلال پنجاب کے صدر، سلیمان کھوکھر نائب صدر اور سید منظور علی گیلانی جوائنٹ سیکرٹری تھے جو میرے گرائیں بھی تھے۔ 
80ءکی دہائی کے آغاز میں جب ضیاءمارشل لاءکی جانب سے سیاسی مخالفین بالخصوص پیپلزپارٹی کیخلاف انتقامی کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو ان جماعتوں کی قید اور نظربندی سے محفوظ رہنے والی قیادتوں کا فین روڈ پر موجود میاں محمود علی قصوری کی اقامت گاہ پر اکٹھ ہوا۔ میاں محمود علی قصوری اس وقت تحریک استقلال کی سرکردہ شخصیات میں شامل تھے۔ اس اکٹھ میں پیپلزپارٹی اور تحریک استقلال سمیت دس کے قریب سیاسی جماعتوں نے مارشل لاءکی مزاحمت اور بحالی ¿جمہوریت کی تحریک کیلئے ایم آر ڈی کے نام سے اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا اور اس پلیٹ فارم سے ملک بھر میں جلسوں‘ جلوسوں کی شکل میں تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا جس پر مارشل لاءکے جبر کی بھی انتہاءکر دی گئی۔ اسکے ردعمل میں ایم آر ڈی نے روزانہ گرفتاریاں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کیلئے چودھری صفدر علی کو آفس سیکرٹری مقرر کرکے انہیں ایم آر ڈی کی تمام جماعتوں سے رابطے رکھنے اور گرفتاریاں دینے والے قائدین اور کارکنوں کی فہرست مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ جس پارٹی کے جس عہدیدار اور کارکن کا گرفتاری کا دن ہوتا‘ چودھری صفدر علی اسے گرفتاری کے دن‘ جگہ اور وقت سے آگاہ کرتے اور بعض اوقات اسے مقررہ جگہ پر پہنچانے کا اہتمام بھی کرتے۔ روزانہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ 1984ءسے شروع ہو کر 1987ءتک جاری رہا اور پوری رازداری کے ساتھ چودھری صفدر علی ہی نے گرفتاریوں کے اس ربط کو قائم اور برقرار رکھا۔ مجھے ان سے دوستی کے ناطے اس پوری تحریک کے ہر پروگرام اور اسرارو رموز کی پل پل خبر ملتی رہی چنانچہ لاہور میں جہاں بھی گرفتاری ہونا ہوتی‘ میں وہاں پہنچ جاتا۔ اس طرح نوائے وقت کیلئے کئی ”سکوپ“ میرے ہاتھ لگتے رہے۔ 
اصغر خان کی نظر بندی اور تحریک استقلال کے دوسرے مرکزی لیڈروں کی گرفتاری کے باعث تحریک استقلال کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نفیس صدیقی پارٹی کے قائم مقام صدر بنے تو ایم آر ڈی کی کنونیئر شپ بھی انکے پاس آگئی چنانچہ کراچی کی پولیس نے انکی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنا شروع کر دیئے۔ وہ کسی طریقے سے بچ بچا کر کراچی سے لاہور آگئے جن کی ایجنسیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ چودھری صفدر علی نے رائل پاک کے فلمی دفتر میں موجود اپنے دفتر میں ہی انکی رہائش کا بندوبست کیا۔ وہ روزانہ یہیں سے بی بی سی کو ٹیلی فونک انٹرویو دیتے اور تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے ایم آر ڈی کے عہدیداروں سے رابطے کرتے جس کیلئے چودھری صفدر علی نے ہی انکی معاونت کی جو اس وقت ایم آر ڈی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات کے منصب تک پہنچ چکے تھے۔ اس دوران نفیس صدیقی سے میری ملاقاتیں بھی رائل پاک کے اسی دفتر میں ہوتی رہیں اور ہماری آپس کی رازداری مثالی رہی چنانچہ پولیس نفیس صدیقی کی روزانہ کی سرگرمیوں سے زچ ہوتی رہی مگر انکے قیام کے پورے ایک ماہ کے دوران انکے ٹھکانے کی خبر نہ پا سکی۔
اس دور میں جے سالک میونسپل کارپوریشن کے اقلیتی کونسلر تھے اور ہمارے ساتھ انکی بے تکلف دوستی تھی۔ انہیں سیاسی اداکاری کی وجہ سے فلموں میں آنے کا بھی شوق چرایا تو مجھے اس کیلئے چودھری محمد اکرم اور چودھری صفدر علی سے سفارش کا کہا چنانچہ میں نے رائل پاک کے اسی دفتر میں چودھری اکرم اور چودھری صفدر علی سے ان کا رابطہ کرادیا مگر ان کا اداکاری کا سنجیدہ شوق مذاق کی نذر ہو گیا اور پھر انہوں نے قومی سیاست میں رفعتیں پائیں۔ چودھری صفدر علی میاں نوازشریف کے بیڈن روڈ والے ماموں کے ناطے مسلم لیگ (ن) کا بھی حصہ بنے مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر گوشہ نشین ہو گئے۔ میں نے انہیں نوائے وقت کے سنڈے میگزین کیلئے اپنی یادداشتیں قلمبند کرنے کیلئے قائل کیا چنانچہ سنڈے میگزین میں انکی چھ سات قسطیں شائع ہوئیں۔ انکی وفات کے بعد آج میرے ذہن میں بھی یادوں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ فی الوقت اتنے کو ہی کافی سمجھیں‘ زندگی نے مہلت دی تو اپنی یادیں آپ کے ساتھ شیئر کرتا رہوں گا۔ 
یار زندہ‘ صحبت باقی

ای پیپر دی نیشن