کراچی میں آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے کاروباری طبقے اورتاجروں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کی۔ فریقین کے درمیان ملک کو درپیش معاشی مسائل کے بارے میں کھل کر مباحثہ ہوا۔ آرمی چیف نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملکی معاملات کو سدھارنے کی طرف مکمل توجہ دیں گے۔ خاص طور پر غریب عوام ، چھوٹے تاجروں اور کارخانہ داروںکو درپیش مہنگائی کے عفریت سے دو دو ہاتھ کریں گے۔ یہ اجلاس انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ ابھی ڈالر اورچینی کی اسمگلنگ ، ذخیرہ اندوزی اوربجلی چوروں کے خلا ف چند ہی آپریشن کیے گئے توڈالر کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور چند دنوں میں دیکھتے ہی دیکھتے روپے اور ڈالر کی شرح میں بہت خوش کن تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن نے یہ خوش کن خبر سنائی کہ ڈالر کی قدر میں بہت جلد کمی ہوجائے گی اور شرح تبادلہ اڑھائی سو روپے تک آجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مافیا سرگرم عمل ہے ، جو ہرحکومتی منصوبہ بندی کے سامنے دیوارکھڑی کردیتے ہیں ۔ ڈالر مافیا پاکستان کی مالیات کو کمزور کرنے کے درپے ہے ، میڈیا کے تجزیوں کے مطابق افغانستان کی طرف ڈالر کی اسمگلنگ زور شور سے ہورہی ہے جس کی وجہ سے وہاں ڈالر بے حد سستا ہے ، یہ صورتحال پاکستان جیسے بحرانوں میں گھرے ملک کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ڈالر کے بحران اور فقدان کی وجہ سے ہماری درآمدات پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ سرمایہ کاروں کودرآمدی ایل سیز کھولنے میں دقت پیش آتی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حالات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب ، امارات ، چین اور قطر نے بھی دل کھول کر پاکستان کی امداد کی ہے، اس پس منظر میں لوگوں کی امیدیں اور توقعات بڑھی ہیں اور وہ نئے حوصلے اور عزم سے سرشار ہیں مگر بے قابو ہوتے معاشی جن کو قابو کرنے میں تاحال مشکلات درپیش ہیں۔ یہ درست ہے کہ مارکیٹ کا ردعمل حوصلہ افزا ہے۔ چینی اور آٹے کی قیمتیں اوپن مارکیٹ میں بڑی تیزی سے نیچے آئی ہیں۔ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی توازن پیدا ہورہا ہے لیکن پٹرول اور بجلی کے بل عوام کی برداشت سے باہر ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ مہنگائی کے آتش فشاں کو بھڑکارہا ہے۔ بجلی بحران کے سلسلے میں ہماری بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اس کا عارضی حل کو اپنارکھا ہے اور محترمہ بے نظیربھٹو کے دور سے لے کر اب تک ملک کے اندر تھرمل بجلی گھروں کا جال پھیل چکا ہے مگر یہ جال تو سراسرجنجال ثابت ہوا ہے کیونکہ بجلی گھروں کے ساتھ معاہدوں کی رو سے ہمیں ہر حال میں ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنی ہیں۔ اس وقت تک گردشی قرضوں کی ادائیگی ملکی خزانے کیلئے بہت بڑا وبال ِ جان بن چکی ہے۔ تھرمل بجلی مہنگے داموں میسر ہے اور مرے کو مارے شاہ مدا ر کے مصداق حکومت نے بجلی بلوں کو عوام کا خون چوسنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ بجلی بلوں کی مد میں آمدنی تو حکومت کو ہوتی ہے لیکن انکم ٹیکس عوام کے کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ بجلی بلوں پر کوئی نصف درجن کے قریب ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے بجلی کی اصل قیمت سے عوام کو ڈیڑھ دو گنا زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے ۔ ٹیکسٹائل و کاٹیج انڈسٹری کی کمرٹوٹ چکی ہے ۔
کوئی حکومتی ذمہ دار نہیں دیکھتا کہ بل دینے والا یتیم ہے ، معذور ہے، بیوہ ہے، نادار و لاچار ہے یا سرمایہ دار۔ جو بل فارمولا سرمایہ دار کیلئے بھی اور وہی غریب صارف کیلئے بھی۔ بجلی بلوں کی مد میں بہت بھاری ٹیکس وصول کرنے کے باوجود بھی حکومت کا رونا ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے کا رحجان نہیں جبکہ بازار میں فروخت ہونےوالی ہر چیز پر سیلز ٹیکس نافذ ہے اور 25کروڑ عوام اس بوجھ کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں بھی آئے روز اضافہ مہنگائی کے سونامی کا باعث بن رہا ہے ۔ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اور پاکستان میں تیل کی قیمتیں ہر ہفتے دو ہفتے بعد بڑھ جاتی ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف اس بدتر صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ اور باخبر ہیں۔ وہ اگر میدان ِ عمل میں کودے ہیں تو لازمی طور پر ان کے ذہن میں لوگوں کو ریلیف دینے کی کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی ضرور ہوگی۔ انھوں نے شہباز حکومت کے دوران ایک قومی معاشی پلان کا اعلان کیا تھا جسے کامیابی سے آگے بڑھانے کی ذمہ داری فوج کو سونپی گئی ہے۔ قومی معاشی پلان کا تعلق کسی ایک حکومت سے نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جسے ہر حکومت پروان چڑھانے کی ذمہ داری ادا کرے گی ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بڑی بڑی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ، نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اس سلسلے میں پانچ اجلاس بھی منعقد کرچکے ہیں ۔ حکومت نے تاجروں کے لیے پاکستانی ویزے کے حصول میں نرمی پیدا کی ہے اور بیرونی سرمایہ کار اپنی دستاویزا ت دکھاکر پاکستانی ویزا بڑی آسانی سے حاصل کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ون ونڈو آپریشن کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے جس کے تحت ملکی یا غیرملکی سرمایہ کاری درجنوں محکموں کے دفاتر کی خاک چھاننے کے بجائے صرف ایک چھت تلے ہی ہر قسم کی تجارتی و مالیاتی اور رجسٹریشن کی سہولیات میسر آسکتی ہیں۔ اس طرح بڑی خاموشی سے انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ افواج ِ پاکستان نے دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کا عزم مصمم بھی کررکھا ہے۔ یہ ایک یقینی امر ہے کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال اطمینان بخش ہوگی تو معیشت کا پہیہ بھی تیزی سے رواںدواں ہوگا ۔