آئین قانون یا چھترول

 اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ہمارا دین مذہب پیسہ ہو چکا ہے۔ کرپشن ہمارے خون میں رچ بس چکی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن کرپشن کی بیماری نے ایسی نحوست ڈالی ہے کہ ہر آنے والے دن میں ہم تباہی اور بربادی کی گہری کھائی میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ بزاروں ارب کے قرضے نہ بہتری لا سکے ہیں اور نہ ہی قوم کی جانب سے پیٹ پر پتھر باندھ کر ریاست کو چلانے کے لیے دیے گئے ٹیکسز سے معاملات چل پا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی ہے کہ ہم نے ملک کو جمہوری طریقے سے چلا کر دیکھ لیا آمریت سے چلا کر بھی دیکھ لیا ایک دفعہ ایمانداری کے ساتھ چلا کر بھی دیکھ لیں شاید افاقہ ہو جائے۔
 اس وقت پاکستان عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ ایک طرف سیاسی جماعتیں دباو بڑھا رہی ہیں کہ فوری الیکشن کروائے جائیں دوسری جانب خود ہی حالات کا رونا بھی رو رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر پہلے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ پہلے حالات درست کرنے ہیں یا الیکشن کروانے ہیں کیونکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح تھوڑا یا زیادہ اقتدار کا مزہ چکھ چکی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر مجھے موقع ملتا تو میں یہ کر دیتا وہ کر دیتا۔ قوم نے سب کو آزما کر دیکھ لیا ہے کوئی بھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا ہر ایک کے پاس اپنے اپنے جواز ہیں۔ لیکن اس میں کوئی بھی عوام کو قصور وار نہیں ٹھرا سکتا کیونکہ پاکستان کے عوام جتنے لچکدار ہیں اتنا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ان کو ذرا سی امید دلا کر جو مرضی کروالو۔
 ہماری سابقہ حکومتوں کو بھی ادراک تھا کہ کرپشن پاکستان کا مسئلہ نمبر ون ہے۔ پچھلا الیکشن تو لڑا ہی احتساب کے نام پر گیا تھا۔ بڑے بڑے لوگوں پر مقدمات بھی درج ہوئے ریاست کے اربوں روپے ان کیسز پر خرچ ہوئے لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہو سکا۔ وقت نے ثابت کیا کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں شدید قسم کی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ہر بااثر شخص بچ نکلتا ہے لہذا قانون اور آئین موم کی ناک ہے جسے ہر طرح سے مینج کیا جا سکتا ہے۔ اب معاملات اس نہج پر آپہنچے ہیں کہ اب آئین اور قانون سے بالاتر اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ اقدامات عام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ خواص کے لیے ہونے چاہئیں۔ جن لوگوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا ہے اس کا تعلق چاہے جس شعبے سے بھی ہو اس کو پکڑ کر بیٹھا لیا جائے اور ریکوری تک قانون اور آئین کو اس کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے کیونکہ اس ملک کی اشرافیہ کو راہ راست پر لانے کے لیے کسی قانون اور آئین کی ضرورت نہیں بلکہ چھترول کی ضرورت ہے۔ اور یہ چھترول بلاتفریق ہونی چاہیے۔ اگر کوئی یہ کر گزرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ اس ملک کا ہیرو ہو گا اور ملک بھی درست ہو جائے گا ورنہ روائیتی اقدامات سے کچھ نہیں ہونے والا۔ مرض اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اب میجر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس آپریشن کی ہلکی پھلکی سی بھنک محسوس کرتے ہوئے ہماری سیاسی جماعتیں اور تمام بینفشری پریشان ہو رہے ہیں۔ بہت سارے سیانے تو پہلے ہی جان بچا کر بیرون ملک جا چکے ہیں اور لوٹ مار کا سامان بھی لے جاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت کچھ یہاں بھی ڈمپ کیا ہوا ہے جسے ریکور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ریکوری صرف ڈنڈے والے ہی کر سکتے ہیں۔
 اس وقت ایک ہلکے پھلکے سے آپریشن کا آغاز ہو چکا جس میں بجلی چوروں، گیس چوروں اور سمگلروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ دراصل پرچون کا کاروبار ہے اصل کام تھوک والوں پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ اس آغاز کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ لوگوں میں خوف پھیل جائے گا کہ اب ہر کسی کے خلاف ایکشن ہو گا۔ بجلی چوروں کو ضرور پکڑا جانا چاہیے لیکن ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جنھوں نے 60 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے یونٹ کو 100 میگا واٹ اسیسمنٹ پیمنٹ کر دی ہے۔ ذرا آئی پی پیز کمپنیوں کے آڈٹ کو بھی منظر عام پر لایا جائے ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنھوں نے اپنے مفاد کے لیے پوری قوم کو گروی رکھ دیا۔ بہرحال اب ایک چھوٹی سی امید پیدا ہو رہی ہے کہ آرمی چیف بڑے اقدامات کرنے والے ہیں۔ ایجنڈا طے کر لیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کس قوت سے ہوتا ہے۔ سلیکٹڈ لوگوں پر ہوتا ہے یا تمام مجرموں سے ایک جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن