ایرانی تیل کی سمگلنگ شفاف تحقیقات کی ضرورت 

سرکاری ادارے نے سمگلنگ پر رپورٹ وزیر اعظم ہاﺅس میں جمع کرا دی، جس میں ایرانی تیل اور حوالہ ہنڈی کاروبار کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں ملوث ہیں، جب کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث افسران، سیاست دانوں اور ڈیلروں کی تفصیلات بھی وزیر اعظم ہاﺅس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔رپورٹ کے مطابق بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل سمگلنگ میں ملوث ہیں، ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 90 سرکاری حکام، اور 29 سیاست دان بھی ملوث ہیں۔
ایرانی تیل کی سمگلنگ کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے‘ وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس سے ملک کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف معیشت کی بحالی کے اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ دوسری جانب ملک کے سیاست دان خود ایسے جرائم میں ملوث نظر آتے ہیں جن سے معیشت کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 29 سیاست دانوں کا ملوث ہونا اگر حقیقت ہے تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ ان سیاست دانوں کے نام عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ قوم کو بھی پتہ چل سکے کہ اسکی قیادتیں کن جرائم میں ملوث رہتی ہیں۔ ایسے ہی سیاست دانوں کی سرپرستی میں مختلف مافیاز آٹا‘ چینی‘ ڈالر اور دوسری قیمتی معدنیات وغیرہ افغانستان اور بھارت جیسے ملکوں میں سمگل کرکے ملک میں قلت پیدا کر رہے ہیں۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ کی ٹھوس بنیادوں پر شفاف تحقیقات کرکے تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور سمگلنگ میں ملوث سیاست دانوں کو اپنے دفاع کا موقع بھی دیا جائے ‘ ممکن ہے سیاستدانوں پر ملبہ ڈالنے کی کوئی سوچ کارفرما ہو۔

ای پیپر دی نیشن