گورننس میں بہتری کے دعوﺅں کے باوجود مہنگائی در مہنگائی 

بیکری کی مصنوعات بنانے والی مختلف کمپنیوں نے قیمتو ں میں اضافہ کر دیا ہے جس کے مطابق 349گرام بریڈ کی قیمت 10روپے اضافے سے 120روپے، 500گرام بریڈ کی قیمت 160روپے، 800گرام بریڈ 230روپے، بن 50روپے، 175گرام فروٹ کیک کی قیمت 20روپے اضافے سے 200روپے، 100گرام فروٹ کیک کی قیمت 100روپے، باقر خانی کا ڈبل پیک (2عدد) 90روپے، رس کا بڑا پیکٹ 270روپے جبکہ چھوٹا پیکٹ کی قیمت 140روپے کردی گئی۔ علاوہ ازیں چینی کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے اور ہول سیل قیمت 10روپے کم ہو گئی۔ جس کے بعد ہول سیل قیمت 166روپے کلو تک آ گئی ہے، مختلف علاقوں میں پرچون سطح پر چینی کی 175 سے 180روپے فی کلو فروخت جاری ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے اگلے ہفتے پٹرولیم مصنوعات فی لٹر 15 روپے تک مہنگی ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ایک ہفتے کے دوران عالمی مارکیٹ میں خام تیل 5 ڈالر فی بیرل مہنگا ہو چکا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بلند ہوتی قیمتیں پاکستان میں مہنگائی کے نئے طوفان کے خدشات کو جنم دے رہی ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں مزید کمی نہ ہوئی تو 16 ستمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
یہ امر سمجھ سے بالا ہے کہ ایک طرف معیشت کی بحالی اور گورننس کی بہتری کے دعوے تواتر سے کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب عوام کو مہنگائی در مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ نگران حکومت کو اس کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس وقت بدترین مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ سب سے زیادہ مزدور اور متوسط طبقہ متاثر ہوا ہے۔ بجلی‘ گیس کے بھاری بلوں نے انہیں ادھ موا¿کر دیا ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات بھی انکی پہنچ سے دور ہیں۔ اسکے باوجود بجلی‘ تیل اور بیکری سمیت دوسری خوردونوش کی اشیاءمیں آئے روز اضافہ کیا جارہا ہے جو حکومت کی بے حسی کا ہی عندیہ دیتا ہے۔ بے شک سابقہ حکومت کی طرح نگران سیٹ اپ بھی اپنے گلے میں پڑا آئی ایم ایف کا ڈھول بجانے پر مجبور ہے مگر اسے یہ ادراک ضرور ہونا چاہیے کہ عوام کو راندہ¿ درگاہ کرکے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا نہ صرف اسکی اور اقتصادی ماہرین کی نااہلی ہے بلکہ یہ اقدام ریاست کی آئینی ذمہ داری سے بھی انحراف کے مترادف ہے۔ دو روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تاجر برادری سے ملاقات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں‘ ڈالر‘ سونا اور چینی کے نرخوں میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے مگر اسکے ثمرات عوام تک ابھی تک نہیں پہنچ پائے۔ اب اگلے ہفتے پھر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 15 روپے فی لٹر اضافے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جس سے مہنگائی کے نئے طوفان آئیں گے اور ناتواں عوام کا مزید کچومر نکلے گا۔ اگر حکومت مصنوعی مہنگائی کرنے والے مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں پر قابو پانے کے دعوے کر رہی ہے اور گورننس بھی بہتری کی طرف جا رہی ہے تو عوام کو اسکے ثمرات سے کیوں دور رکھا جا رہا ہے۔ جب تک عوام کو حقیقی ریلیف نہیں دیا جاتا‘ انہیں مطمئن کرنا ممکن نہیں۔ بہتر ہے حکومت مہنگائی کے محرکات کا کھوج لگا کر ان پر قابو پائے اور مافیاز کو نشانِ عبرت بنائے تاکہ ملک سے بدترین مہنگائی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...