الیکشن کے حوالے سے بلاول اور آصف زرداری کے موقف میں تضاد
ابھی یہ معلوم نہیں یہ حقیقی اختلاف رائے ہے یا جان بوجھ کر دکھایا جا رہا ہے۔ آصف زرداری سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں وہ جو کہتے یا کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا مشن ”لٹو تے پھٹو“ کے ساتھ اب بلاول کو وزیر اعظم بنانا ہے۔ اس نازک موڑ پر ان کے فرزند ان کی مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما جانتے ہیں کہ پارٹی پر اور زرداری ہاﺅس پر بلاول کی نہیں ان کے والد کی گرفت ہے۔ اب لاکھ بلاول الیکشن 60 دن میں یا 90 دن میں کرانے کی باتیں کریں یا تقریریں ، ہونا وہی ہے جو ان کے والد بزرگوار کہیں گے۔ آصف زرداری کا الیکشن کے حوالے سے موقف ہے کہ یہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کرائے جائیں جو ظاہر ہے 3 ماہ میں مشکل نظر آتے ہیں۔ سیاسی میدان میں جو جماعتیں دنگل میں حصہ لے رہی ہیں وہ بھی اس مسئلے پر بٹی ہوئی ہیں کوئی فوری طور پر پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن چاہتی ہیں، کوئی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ، یوں ایک عجب سے کھچڑی پکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چاہے ہانڈی میں پتھر ابل رہے ہوں۔بھاپ کے پریشر سے ڈھکن ضرور اچھلتا ہے۔ پیپلز پارٹی والے پریشان ہیں ، بیٹے کا ساتھ دیں یا باپ کا۔ اس لیے وہ مصلحتاً خاموش ہیں۔ اب دیکھنا ہے یہ خاموشی کب تک برقرار رہتی ہے۔ بہت سے ہماری طرح اسے نورا کشتی قرار دیتے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ بلاول اتحادیوں پر برس رہے ہیں اور ان کے والد اتحادیوں کو مناتے نظر آتے ہیں تاکہ تعلق برقرار رہے۔ ویسے بھی وہ تعلق جوڑنے میں ماہر ہیں۔ نوجوان بلاول ابھی تک خود کو وزیر خارجہ سمجھ رہے ہیں اور ان کی سوچ میں وہ اس وقت چاروں طرف پرانے پروٹوکول کے باعث سمجھ رہے ہیں کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ مقبول جماعت کے مقبول رہنما ہیں۔ وہ ذرا اس سحر سے باہر نکلیں اور حقیقت کی دنیا میں آئیں جس میں ان کے والد سیاست کے کھلاڑی رہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ڈر ہے ہمارے فاسٹ باﺅلرز کو نظر نہ لگ جائے۔ امام الحق
یہ خدشہ بھارت کے خلاف ادھورے میچ میں درست ثابت ہوا ہے۔ بارش نے دھواں دار اننگز کھیلتے ہوئے جس طرح پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کو میدان چھوڑنے پر مجبور کیا اس کی بدولت بھارت کے تیز رفتار رنز کو بریک لگی۔ اگر میچ جاری رہتا تو انڈیا کا سکور اچھا خاصا پہاڑ ثابت ہو سکتا تھا۔ نظر لگی ہو یا نہیں مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ ہماری ٹیم بھارت کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک انجان سے دباﺅ کا شکار نظر آتی ہے۔ یہ نفسیاتی خوف ہے یا نظر ، قارئین خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس بہترین باﺅلر اور بیٹر ہیں جن کا نام ہی بھارتی کھلاڑیوں کے چھکے چھڑانے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے ہماری کرکٹ ٹیم کو دباﺅ میں آنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ ادھورا رہ جانے والا کرکٹ میچ انہیں نڈر ہو کر کھیلنا ہو گا۔
دوسری طرف مہنگے ٹکٹوں کی وجہ سے پاکستان بمقابلہ بھارت کے زبردست مقابلے کے باوجود سٹیڈیم میں اتنے تماشائی جمع نہ تھے جس کی امید پر ٹکٹوں کے اتنے نرخ مقرر ہوئے۔ سری لنکا اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگے ٹکٹ خریدنا کرکٹ شائقین کے لیے ممکن رہا۔ ہاں اگر یہ میچ پاکستان میں ہوتے یا پھر انڈیا میں تو مہنگے ہو یا سستے شائقین کا جم غفیر سٹیڈیم کا رخ کرتا اور یہ مقابلہ یا ٹاکرا نہیں تیسری عالمی جنگ کا ٹریلر ہوتا۔ اس ادھورے میچ کے مکمل ہونے سے پاکستان پر زیادہ فرق بھی نہیں پڑے گا وہ سپرفور مرحلے کے لیے کوالیفائی کر چکا ہے۔ شاید اس لیے ہمارے کھلاڑی اسے ایزی لے رہے ہیں۔ مگر انڈیا والوں کے لیے یہ اہم میچ ہے وہ جی جان سے لڑنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے ہمیں بھی ہوشیار رہنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
مراکش میں رونالڈو نے اپنا لگژری ہوٹلز زلزلہ متاثرین کیلئے کھول دیا
دنیا کبھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں رہتی۔ اگر ایسا ہو تو شاید دنیا بنانے والا اس دنیا کو چشم زدن میں غارت کر دے گا۔ دین و مذہب کوئی بھی ہو۔ انسانیت اگر زندہ ہے، انسان دوسروں کے دکھ درد دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ گزشتہ دنوں مراکش میں آنے والے ہولناک زلزلہ میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے۔ ہزاروں زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں۔ اس دکھ کی گھڑی میں دنیا کے مشہور نمبر ون فٹبالر رونالڈو نے مراکش میں اپنا لگژری ہوٹل زلزلہ متاثرین کے لیے کھول دیا۔ جس پر پوری دنیا میں اس کی تعریف کی جا رہی ہے۔ شاعر نے سچ کہا تھا
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کور و بیاں
مراکش ایک برادر مسلم ملک ہے ہمیں بھی اور باقی اسلامی ممالک کو بھی مصیبت کی اس گھڑی میں دل کھول کر اپنے مسلم بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ رونالڈو کے کھیل کی طرح ان کے اس نیک جذبے نے بھی لوگوں کے دل جیت لئے ہیں۔ رونالڈو اس وقت سعودی عرب کے النصر فٹبال کلب کی طرف سے کھیل رہے ہیں۔ اس لیجنڈ فٹبالر کو مسلم دنیا میں اس وجہ سے بھی بہت پذیرائی مل رہی ہے۔
پاکستان میں بھی لاکھوں نوجوان ان کے کھیل کے دیوانے ہیں۔ یہی حال عرب دنیا کا ہے جہاں فٹبال کو قومی کھیل کی حیثیت حاصل ہے۔ خود رونالڈو نے بڑے بڑے فٹبالرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عرب دنیا میں آ کر رہیں۔ خاص طور پر وہ دبئی سے بہت متاثر ہیں اور وہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس پر یورپی نسل پرست گروہ ان سے ناراض بھی ہیں۔ فی الحال وہ اپنے بیوی بچوں سمیت سعودی عرب میں رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں پولیو وائرس کی تصدیق، چوتھا کیس سامنے آ گیا
یہ جو ہر سال اربوں روپے پولیو کے خاتمے کی مہم پر خرچ ہوتے ہیں۔ کیا یہ سب کھو کھاتے میں جا رہے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود کہ پولیو فری ملک نہ ہونے کی وجہ سے ہم پر سخت سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ ہم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ اس ماہ اتنے لاکھ اس سال اتنے کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلائے گئے ہیں۔ لاہور نام کا شہر کوئی دور دراز پسماندہ علاقے میں نہیں۔ یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں اس برس اب تک پولیو وائرس کا چوتھا کیس سامنے آنا افسوسناک ہے۔ اس وائرس کا سلسلہ نسب و حسب افغانستان میں پائے جانے والے پولیو کے وائرس سے ملتا ہے۔ یعنی اس وائرس کا خاندان افغانستان میں ہے اور وہاں سے آنے والے افغان مہاجرین کی بدولت یہ لاہور میں بھی آن بسا ہے۔
پویر دنیا میں مہاجرین کو علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ”دل تو کیا چیز ہے جاں تجھ پہ نچھاور کر دوں“ گھر کے دروازے اور کھڑکیاں تک مہاجرین کے لیے کھول دیتے ہیں اس کے نتیجے میں اسلحہ، منشیات اور پولیو بھی ہمارے ہاں چپکے چپکے مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر ہمیں خوار اور تباہ کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اب لاہور کے اندر موجود افغان مہاجرین کی بدولت یہ پریشانی ہمارے ہاں بھی در آئی ہے۔ ہمیں یعنی ہماری حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کرنا ہوں گے وائرس والے علاقے میں سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ افغان مہاجر قانونی ہوں یا غیر قانونی انہیں ان کے مراکز یا شہر سے علیحدہ بستیوں میں رکھا جائے ورنہ پولیو وائرس یونہی ہمیں پریشان کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭