خوشحال مستقبل پر ایک بچے کا نقطہ نظر

مجھے اپنے ہونہار پڑھے لکھے نوجوانوں کو ناامیدی سے دوچار کرنا ہے اور نہ ہی اپنے وطن عزیز سے بہتر تلاش معاش کے حصول کیلئے بیرون ممالک جانے والے افراد کی دل شکنی مقصود ہے۔ محض آگہی کیلئے چند معروضات پیش کرنی ہیں۔ فیکلٹی‘ بیچلرز اور ماسٹرز نوجوان پاکستان آخر کیوں چھوڑنے کیلئے بے تاب ہیں؟ بظاہر اسکی متعدد وجوہات ہیں مگر میری دانست میں ملک چھوڑنے والے نوجوانوں کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی قابلیت کے مطابق باعزت روزگار کے حصول میں وہ ناکامی ہے جس سے اکثریت احساس کمتری کا شکار ہے۔ اسے قومی المیہ کہہ لیں کہ ہمارے ’’برطانوی صاب بہادروں‘‘ نے برصغیر پر سو برس حکومت کرنے کے دوران سی ایس ایس امتحان میں شامل گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے انگریزی لب و لہجہ کو ایسا پالش کیا جس کی Respectalbe In اور Sir کے حوالے سے قائم دائمی چمک دمک کو برقرار کھنے کو ہر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی سرگرداں ہے۔ مگر پڑھا لکھا طبقہ پاکستان کیوں چھوڑ رہا ہے‘ یہ سوال اگر ملک کے پچیس کروڑ عوام سے پوچھا جائے تو جواب ان کا آج بھی یہی ہے کہ ملک کے بگڑتے معاشی و اقتصادی حالات‘ بے روزگاری‘ روزافزوں مہنگائی اور عدم سیاسی استحکام اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں خوشحالی کا خواب پورا ہونا اب ممکن نہیں رہا اس لئے امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ پرتگال‘ آسٹریلیا‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور دنیا کے دیگر امیر ممالک میں نوجوانوں کی قسمت آزمائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ 
ہماری دوسری قومی بدنصیبی یہ کہ انفرادی طور پر ہر دوسرا شخص کرپٹ یا پھر کرپشن کے دھارے سے تو گزر رہا ہے مگر اجتماعی طور پر ہر راشی ہر فرد کو بہتر اور پکا مسلمان دیکھنے کا متمنی ہے۔ یہی وہ افسوسناک فکرو عمل ہے جو ہماری 76 سالہ آزادی کے باوجود تاہنوز ہماری ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ 
انگلستان کا اگر ذکر کریں تو نقل مکانی کے بعد یہاں قیام پذیر ہونے والے اپنے ہم وطنوں کے بنیادی مقاصد میں بھی بہتر اور خوشحال مستقبل سرفہرست تھا۔ 1960ء کی دہائی میں محض مزدوری کی خاطر جو اہل وطن یہاں آئے فیکٹریوں میں سخت سردی کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے جس طرح بارہ بارہ گھنٹے کام کیا اور انگریزی زبان پر دسترس نہ ہونے کے باوجود محنت مشقت کی‘ یہاں پروان چڑھنے والا ان کا کوئی بچہ آج انکی محنت‘ مزدوری کی یہ ناقابل فراموش داستانیں سننے کو محض اس لئے بھی تیار نہیں کہ بچوں نے والدین کی محنت اور مالی مجبوریوں کو قریب سے دیکھا ہی نہیں؟ اس لئے انکے والدین‘ دادا‘ نانا انہیں جب یہ بتاتے ہیں کہ ایک ’’حلال مرغی‘‘ کی خریداری کیلئے اپنی محدود ہفتہ وار تنخواہ میں سے بسوں اور ٹرینوں پر کرایہ خرچ کرنے اور کئی میل کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک ’’حلال ککڑی‘‘ خریدنے میں کامیاب ہوتے تھے تو زیادہ تر بچے‘ پوتے‘ پوتیاں انکے اس ’’حلالی اقدام‘ کو انکی انگریزی زبان سے ناآشنائی پر معمور کرتے ہوئے انہیں ’’آج بھی سوری فار ڈیٹ‘‘ تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ مکمل بھول چکے کہ انکے والدین اور دادا نانا کا برطانیہ آنے کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ جبکہ دوسری جانب بچوں کے والدین‘ دادا اور نانا ان بچوں کو پاکستان کے بارے میں صبح و شام یہ بتانے پر بضد ہیں کہ پاکستان ہی درحقیقت انکی پہچان ہے۔ وطن عزیز کے حوالے سے یہاں کے بچوں کی ذہنی تربیت‘ عادات و اطوار‘ والدین اور بزرگوں سے طرز تخاطب چونکہ ولایتی صورت اختیار کر چکا ہے اس لئے برطانوی سوسائٹی میں جوان ہونیوالے ان بچوں کو اپنے آبائی وطن پاکستان کے بارے میں کچھ بھی آگاہ کرنے سے قبل دیسی والدین کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے کہ لگی لپٹی کے بغیر بات کرنا ان بچوں کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ 
اگلے روز اپنی طرح کے ایک دیسی والدین کے دردولت پر دوران چائے دوست اپنے ’’سیاسی چسکے‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے وطن عزیز کے بگڑتے معاشی اور سیاسی حالات پر انتہائی ناامیدی سے بات چیت جاری رکھے ہوئے تھا مگر اسکی خواہش تھی کہ اپنے نواسوں کو وہ اس بار پاکستان ہالیڈیز پر لے جائے۔ میری رائے کا وہ ابھی منتظر تھا کہ عین اس موقع پر اس کا نواسہ کمرے میں داخل ہوا۔ دادا جان نے بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میرا تعارف کروایا اور ساتھ ہی اس بچے سے پاکستان میں ہالیڈیز کی خواہش کا دوبارہ اظہار کردیا۔ دادا جان کی خواہش سننا تھی کہ بچے نے میری جانب متوجہ ہوتے ہوئے فرفر انگریزی کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔ انکل! میں جانتا ہوں کہ ’’گرینڈ ڈیڈ کی طرح آپ بھی پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں کہ وہ آپ کا آبائی وطن جو ٹھہرا مگر گرینڈ ڈیڈ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں برطانیہ میں پیدا ہوا ہوں اس لئے میری سوچ اور حب الوطنی کا معیار قطعی مختلف ہے۔ گرینڈپا، دن رات مجھے پاکستان کی سیر کرانے کے حسین نظاروں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ انکی برطانیہ آمد‘ ون پسینے کی کمائی‘ ٹھنڈی اور برفانی راتوں میں شفٹ ورک کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ مائی ڈیڈ کی چالیس فیصد سوچ بھی ایسی ہی ہے مگر گرینڈپا ہیں کہ دن رات مجھے پاکستان کی سیر کرانے کے حسین خواب دکھا رہے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان کو برطانیہ میں جس زاویے سے میں دیکھ رہا ہوں‘ سوری ٹو سے‘ میرے لئے وہ آئیڈیل نہیں‘ میری عمر اب اپنے لئے بہتر فیصلے کرنے تک پہنچ چکی ہے اس لئے انکل! جانتا ہوں آپ کالمسٹ ہیں مگر پلیز! ڈیڈ اور گرینڈ ڈیڈ کو بتائیے کہ ہالیڈیز کے بارے میں مجھ پر وہ ایسا دبائو نہ ڈالیں۔ اس بچے کی روانی سے بولی انگریزی اور اسکی سوچ سے مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ کہنا چاہ ہے کہ:
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدل جانے سے مے خانہ نہ بدلے گا
ڈیڈ اور گرینڈ ڈیڈ کے پاکستان میں نہ جانے کی آخر وجہ کیا ہے؟
جس ملک کے اپنے شہریوں کو موبائل فون ساتھ لے جانے اور 30 روز تک استعمال کرنے پر بھاری ٹیکس اور رجسٹریشن کے مراحل طے کرنے ہوں‘ وہاں ہالیڈیز کیسی؟ساتھ ہی اس نے مجھے پاکستان سے ان 97 طلبہ کی خبر سنا دی جو حکومت کے خرچ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے بیرون ممالک آئے، تعلیم مکمل کی اور یوں واپس پاکستان جانے سے اب انکار کردیا ہے۔ اس سوال کا اب میں کیا جواب دیتا‘ اسکے دادا جان سے اجازت اور بچے کو ’’بائی‘‘ کہہ کر میں نے گاڑی سٹارٹ کرلی۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...