خواہشوں کے اسیر

ملکی حالات اور اس حوالے سے درپیش مسائل پر تو ہر کوئی بات کر بھی رہا ہے اور اس بابت اپنے تبصروں اور تجاویز سے رائے عامہ کو مستفید بھی کر رہا ہے اور کہیں کہیں بعض دوست اس کوشش میں بھی نظر آتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے من پسند اور خواہشات پر مبنی بیانیئے سے دوسروں کو متاثر کر کے ان کی رائے بدل سکیں جسے دوسرے لفظوں میں ذہن سازی بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب ہم تھرڈ جنریشن وار کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں بھی یہی فیکٹر کائونٹ کرتا ہے کہ کس طرح ایک مخصوص بیانییے کی لوگوں کے ذہنوں میں شجرکاری کی جائے۔ بدقسمتی سے پچھلے پانچ دس سالوں میں ہمارے ساتھ بھی یہی سانحہ درپیش آیا جس کے کسی حد تک ہمارے طاقتور حلقوں کے کچھ پیش رو بھی اس سلسلے میں ذمہ دار گردانے جا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں جس پلیٹ فارم نے سب سے کلیدی رول ادا کیا وہ سوشل میڈیا کا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں دنیا میں فاصلوں کو کم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور اسے ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کر دیا وہاں اس نے بہت سی قباحتیں بھی پیدا کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر علاقے کی اپنی روایات ہوتی ہیں اور اہل دانش کیا، ایک معمولی عقل کا آدمی بھی جانتا ہے کہ وہاں کے باسی اپنے دستیاب وسائل کا استعمال بھی انہی روایات کے مطابق کرتے ہیں۔
راقم کے اپنے مشاہدہ کے مطابق جسے ورلڈ ڈیٹا بھی سپورٹ کرتا ہے ، یورپ اور مغربی اقوام بشمول چائنہ اور دیگر فار ایسٹ کے لوگ جو ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نظر آتے ہیں اْنکے ہاں اس سوشل میڈیا کا زیادہ تر استعمال یا تو ریسرچ کیلئے استعمال ہوتا ہے یا پھر وہ اسکا استعمال انٹلیکچول میٹریل کے تبادلے کیلئے کرتے ہیں جبکہ ہمارے کلچر کی بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے ہاں اسکا سب سے زیادہ استعمال افواہ سازی، غیبت اور دوسروں کے نقائص اجاگر کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اسکے بعد ہمارے ملک میں اس پلیٹ فارم کو دوستوں نے جس ایک اور مقصد کیلیئے استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپ کی پروفائل سے سب سے پہلے اس کھوج میں ہوتے ہیں کہ یہ بندہ کونسی سرکاری یا سماجی حیثیت پر فائز ہے اور یہ ہمارے کس کام آ سکتا ہے جس کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح سوشل میڈیا پر انٹرایکشن کے ذریعے آپ سے روابط بڑھاتے ہیں۔ بس ایک دفعہ آپ انکے رابطے میں آ جائیں تو پھر وہ اپنا کام دکھانا شروع کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ طبقہ دو کلاسوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک تو وہ طبقہ ہوتا ہے جو آپ کے سوشل سرکل میں داخل ہونے کی جستجو میں ہوتا ہے کہ کس طرح یہاں پر روابط بڑھا کر اس سرکل میں موجود لوگوں سے اپنے کام نکلوانے ہیں یا پھر انکے ساتھ تصاویر بنوا کر ان تصاویر کو کہاں اور کس طرح بیچنا ہے۔ یہ سلسلہ آپ کی ذات تک نہیں رْکتا بلکہ وہ آپ کی فرینڈ لسٹ میں اس تلاش میں رہتے ہیں کہ آپکی فرینڈ لسٹ میں موجودگی کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے کس کس طرف اپنا جال پھینکنا ہے اور یوں انکی طرف سے ایک لامتناہی سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے جبکہ دوسری طرف اس سوشل میڈیا پر آپکو بیشمار دوست ایسے بھی ملیں گے جو کسی نہ کسی طرح اس کوشش میں نظر آئینگے کہ وہ اپنی مجبوریوں اور بے بسی کے قصے سْناکر کسی نہ کسی طور آپ سے مالی مدد کے طلبگار ہونگے۔ اوپر بیان کردہ باتیں مفروضوں پر مبنی نہیں بلکہ راقم کے ساتھ اس طرح کے بیشمار واقعات پیش آ چکے اور سوشل میڈیا پر موجود بہت سے سنجیدہ دوستوں نے اس ایشو کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس کی وجہ سے اس خاکسار کو ان سطور کا سہارا لینا پڑا۔ چند سال پہلے کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عمرہ کی سعادت نصیب کی۔ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادائیگی کے بعد روضہ رسول حاضری کیلیئے جب پہنچے تو مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہوٹل میں سامان رکھ کربھاگم بھاگ مسجد نبوی پہنچے جماعت کھڑی ہو چکی تھی شکر الحمدو للہ جماعت کے ساتھ شرکت کا موقع مل گیا۔ سلام کے بعد جیسے ہی فارغ ہوا تو ساتھ بیٹھے ساتھی بڑی گرمجوشی سے بالمصافحہ ہوئے اور بولے پاکستان سے لگتے ہیں۔ خاکسار نے اثبات میں سر ہلایا، بولے میرا بھی پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق ہے، بی ایس سی انجینئرنگ کی ہوئی ہے ٹی وی انجینئر کے طور پر یہاں ملازمت کر رہا تھا۔ آجکل نوکری نہیں بچے ساتھ ہیں، دیار غیر میں سخت مشکل میں ہوں کوئی دو سو تین سو ریال مدد کر دیں۔ شکل و صورت اور لباس گیٹ اپ سے سفید پوشی کا بھرم کسی شک و شبہ سے بالاتر نظر آ رہا تھا۔ گفتگو سْن کر جو بھی معاملہ کیا وہ اپنے اور اللہ کے درمیان ایک راز تھا۔ ہوٹل واپس آ کر جب عشاء کیلئے دوبارہ مسجد نبوی کا رْخ کیا تو ایک دفعہ پھر ایک اور صاحب اسی گیٹ اپ اور نفاست کے ساتھ ملے اور تقریباً ملتی جلتی سٹوری ڈالی۔ البتہ شہر گوجرانوالہ کا نام لیا، اب راقم کا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں نہ کہیں کچھ دال میں کالا ہے۔ اس دفعہ معذرت کی، واپس ہوٹل میں آئے تو کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی اْنہیں دونوں واقعات بتائے وہ کہنے لگے صبح دیکھنا مسجد نبوی کے صحن کے اطراف میں آپ کوایک مخصوص علاقہ کے لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آئینگے۔ یہ پورا مافیاء ہے جو یہاں پر وارد ہوا ہے اور ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
قارئین، اس سماجی بگاڑ کی جو ایک لعنت سے کم نہیں ، بنیادی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں ہمارا خدا پر اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا ایمان متزلزل ہوچکا۔ محنت سے اپنے زور بازو پر آگے بڑھنے کی جستجو ہم میں مفقود ہو چکی۔ اندر کی غیرت کب کی مر چکی۔ ہماری سوچ صرف اور صرف نظر کے طمع اور پیٹ کی بھوک تک محدود ہو چکی اور ہم اپنی خواہشوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ 

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...