بلوچستان کا آتش فشاں !

 بلوچستان میں انسانی نفرت کی چنگاری سلگ رہی ہے خدشہ ہے کہ یہ چنگاری شعلہ نہ بن جائے اور پھر یہ شعلہ آگ نہ پکڑ لے جس پر قابو پانا مشکل ہو جائے۔ ایک ہی دن میں دس شہروں میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات، درجنوں شہادتیں وہ بھی بے گناہ شہریوں کی۔ان واقعات سے پورے ملک کی فضا سوگوار ہوگئے۔ایسے وقت میں جب ملک مکمل طور پر سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کا شکار ہو ایسے میں ایسے واقعات کا ظہور پذیر ہونا پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔سوال کھڑا ہوجاتا ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟اور پھر تمام معاملے کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اس میں غیر ملکی طاقتیں یعنی بھارت اور امریکہ ملوث ہیں۔وہ ہمارے نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر اپنا آلہ کار بنا کر ملک میں خوف اور دہشت گردی کا ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ پھر رسمی بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف بھر پور کارروائی کی جائے گی۔ انہیں کیفر کردار کو پہنچایا جائے گا۔ ان کے سرقلم کر دئیے جائیں گے۔ اور جناب وزیر داخلہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ یہ کہنا بھی بڑا آسان ہے کہ ان دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے مگر اس سوال کا جواب نہیں دیا جاتا کہ غیر ملکی طاقتوں کو ایسی صورتحال پیداکرنے کا موقع کیسے ملا اور کس نے دیا۔آخر اندرونی سطح پر کوئی کمزوری کوتاہی ہوتی ہے جس سے  بیرونی دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔آپ بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک دن میں رونما نہیں ہوا ۔وہاں بھی طویل عرصے سے احساس محرومی کی شکایت تھی۔ حکومتوں نے اس کا تدارک کرنے کی بجائے اسے دبانے کی کوشش کی جس کے سبب لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا اور پھر 70ء کے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے مرحلے میں رکاوٹیں سامنے آئیں تو مسائل کا آتش فشاں پھٹ گیا۔ احساس محرومی کے شکار نوجوان مکتی باہنی کی صورت میں سامنے آگئے، ہر طرف آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا پھر ان حالات سے فائدہ اٹھانے کیلئے غیر ملکی طاقتیں بھی سامنے آگئیں اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوگیا۔ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ غیر ملکی طاقتوں کو مداخلت کا موقع بھی ہمی نے فراہم کیا تھا۔اسی طرح کے حالات ان دنوں بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنا ہے تو ہمیں ماضی کے تاریخی حقائِق کا جائزہ لینا پڑے گا ۔
 قیام پاکستان سے قبل  بلوچستان کمشنری کے ماتحت تھا اور چیف کمشنر براہ راست گورنر کے ماتحت تھا۔بلوچستان کو صوبہ بنانے کا تزکرہ ہمیں سب پہلے1927ء میں ملتا ہے جب انتخابی مہم کے دوران قائد اعظم نے بلوچستان کا دورہ کیا اور بلوچی راہنمائوں سے ملاقات کے دوران تجویز دی کہ بلوچستان کو ایک صوبے کا تشخص ملنا چاہئے اس کے بعد 1933ء میں لندن کانفرنس کے دوران علامہ اقبال نے بھی بلوچستان کو صوبہ بنانے کی بات کی تھی۔ پھر 1946ء کے انتخابات سے قبل قائد اعظم نے دوبارہ بلوچستان کا دورہ کیا اور بلوچستان کیلئے صوبائی حقوق کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لوگوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرکے سیاسی و معاشی حقوق کیلئے جدوجہد پر اُبھارا۔ چنانچہ 29 جون 1947ء کو کوئٹہ میونسپلٹی اور پشتون شاہی جرگہ نے برطانوی بلوچستان کے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ستمبر 1947ء کو حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ بلوچستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے گا۔ ایجنٹ آف گورنر جنرل کو گورنر بنا دیا جائے گا اور عوامی حمایت یافتہ لوگوں کو اس کی کابینہ کا وزیر بنایا جائے گا۔ یہ وعدہ 1970ء کے الیکشنوں تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔گویا آج بلوچستان کے سیاسی و معاشی حقوق اور صوبائی خود مختاری کی جو بات کی جاتی ہے اس کا آغاز 1927ء میں ہوگیا تھا اور اسی سیاسی،معاشی اور صوبائی خود مختاری کا تصور لے کر یہ ریاستیں پاکستان میں شامل ہوئی تھیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی پاکستان میں ون یونٹ کا قیام عمل میں آگیا۔اس طرح صوبوں کی انفرادی یا صوبائی شناخت ختم ہوگئی۔ گوکہ نئی آئین سازی سے صوبوں کی حیثیت بحال بھی ہوگئی مگر بلوچستان میں معاشی و سیاسی حقوق سے محرومی کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔آپ ایوب خان سے بھٹو اور بھٹو سے پرویز مشرف کے دور حکومت تک آجائیں۔حقوق کی بات کرنے والوں کیساتھ کیا سلوک ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔اس پر نواب اکبر بگتی کی شہادت کا سانحہ ہو گیا یہ شہادت اس انداز میں ہوئی کہ سیاسی محرومیوں کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا۔جب ہم بلوچستان کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو بلوچستان کے انتظامی ڈھانچے کو بھی ایک نظر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے یہ انتظامی ڈھانچہ بھی بلوچستان کے مسائل کا بڑا سبب رہا ہے۔
ہمارے ہاں پنجاب میں سارا خطہ ایک جیسا ہے کسی قسم کی انتظامی تقسیم نہیں ہے جبکہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے بلوچستان تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جہاں براہ راست کنٹرول تھا جیسے کوئٹہ، سبی ،پسنی ،چمن وغیرہ  دوسرا حصہ وہ ہے جو پولیٹیکل ایجینسیز کے زیر انتظام تھا جس میں ژوب لورالائی پشین ،چاغی وغیرہ شامل ہیں ان کو چیف کمشنر کے ماتحت پولیٹیکل ایجنٹ کنٹرول کرتا تھا جبکہ تیسرا حصہ ریاستوں کی کنفیڈریشن پر مشتمل تھا جس میں قلات خاران مکران اور لسبیلہ شامل تھے جن پر خان آف قلات کو بالادستی حاصل تھی ۔ بلوچستان میں بدامنی کی وجہ عالمی سیاست بھی ہے اگر یہ قیام پاکستان سے قبل ترقی نہیں کر سکا تو اس کا مطلب ہے کہ برطانوی حکومت کے اپنے مفادات تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ صوبہ ڈویلپ ہو اور ترقی کرے پھر ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی اس وقت بھی وہ اس صوبے کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔عالمی طاقتوں کے مرہون منت ہونے کے باعث ہم نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا ہم نے وہاں ترقیاتی کام کرنے کی بجائے صرف سرداروں کو مضبوط کیا اور ان کی مرضی و منشا کے مطابق انہیں سہولیات دیں۔ اب سردار اپنے قبیلے کے لوگوں کو کچھ دے یا نہ دے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم براہ راست عام شہری کی ترقی اور فلاح کی طرف نہیں گئے۔ عالمی طاقتوں کا ٹکرائو ہماری بدلتی ہوئی پالیسیاں اور ان کا تسلسل اس علاقے میں گھمبیر مسائل کاسبب بنا۔ آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر نوجوان جو جدوجہد کر رہے ہیں یہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ان کی جدوجہد پُرامن ہے، یہ بلوچستان کی سیاست کو لیڈ کر رہے ہیں۔حکومت کو انہیں مثبت انداز میں لینا چاہیے، ان کی داد رسی کرنی چاہیے۔ہم آج یہاں یہ غلطی کر رہے ہیں۔ہم ان پُرامن لوگوں کو ویلکم نہیں کر رہے جب آپ امن کو راستہ نہیں دیتے تو بدامنی اپنا راستہ خود بنانا شروع کر دیتی ہے۔  ان رواں دواں پالیسیوں کے درمیان جب ہم نے سوچا کہ بلوچستان کو ترقی دینی چاہیے، اس کیلئے گوادر میں سی پیک جیسے منصوبوں پر کام شروع کیا۔اب ان منصوبوں کی سب سے زیادہ تکلیف بھارت اور امریکہ کو ہے۔وہ نہیں چاہتے کہ ان منصوبوں کے سبب خطے میں چین کی پوزیشن مضبوط ہوجائے چنانچہ انہوں نے پاکستان اور بلوچستان کی ترقی اور چین کا راستہ روکنے کیلئے اپنی ایجنسیوں کے ذریعے نت نئی سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اسی علاقے کے باغیوں کی سرپرستی شروع کردی۔جس میں بہرحال بیرونی مداخلت کا ایک پہلو ضرور ہے مگر دوسروں کو الزام دینے سے پہلے ہمیں اپنی پالیسیوں کی جانب بھی دیکھنا چاہیے جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کو اسی وقت دراندازی کا موقع ملتا ہے جب اندرونی سطح پر کوئی کمزوری ہو۔اس سلسلے میں ہم بنگلہ دیش کی مثال دے چکے ہیں لہٰذا ہمیں اس مقام تک جانے سے پہلے ہی ان کے سیاسی و معاشی حقوق کے سلسلے میں قدم آگے نہیں بڑھائیں گے۔بلوچستان سلگتا ہی رہے گا۔ اصل بات پھر وہی ہے کہ بلوچ شہری ہمارے بھائی ہیں بیٹے ہیں۔ہماری مائیں بہنیں ہیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں ہمیں انہیں اسی محبت شفقت اور احترام کیساتھ گلے لگانا ہوگا جس کے وہ مستحق ہیں۔ بلوچستان کے امن اور قومی مفاد کیلئے یہ ضروری ہے۔

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...