ایک ثانیہ زہرا ملتان میں قتل کرد ی گئی جبکہ دوسری ثانیہ کو آہستہ آہستہ مارا جارہا ہے ، 26 سالہ ثانیہ کی گری ہوئی صحت اور چہرہ بتا رہا تھا کہ شادی اس کیلئے ڈارؤنا خواب ثابت ہوئی، اسکی آواز اسکی باڈی لینگوئج سب چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ وہ ایک جلتے جہنم میں قید کردی گئی ہے،صاف صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ کس اذیت سے دوچار تھی، ثانیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جبکہ ہونٹوں پر سسکیاں جاری تھیں ،زارو قطار رو تے ہوئے بولی جب بیاہنے آئے تھے تو ساس سسر نے بڑے دعوے کئے تھے کہ تمہیں بیٹی بنا کر رکھیں گے لیکن ایک ماہ بھی سکون سے رہنے نہیں دیا، ساس تو ساس میرا سسر بھی بڑی ساس بن گیا،والدین کو جنت کہنے والے ساس سسر نے میری اور میرے دونوں بچوں کی زندگی جہنم بناڈالی ہے، 22 سال کی تھی جب بی ایس پاس کر کے ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری شروع کی، میرے کچھ خواب تھے جو پورے کرنا تھے ، دن رات محنت کرکے دفتر میں اپنی جگہ کو مستحکم کیا پھر 24 سال کی عمر میں میرا نکاح اور کچھ ماہ بعد رخصتی کردی گئی۔ خاوند اتنا کمزور نکلا کہ اللہ کے حکم پر عمل نہ کیا یعنی میرے ساتھ انصاف پر نہیں چلا بلکہ اپنے والدین کے دوزخ بارے پھیلائے گئے پروپیگنڈے کے ڈر سے والدین کی کھلم کھلا زیادتیوں پر بھی خاموش رہا۔ سسرال میں ایک ماہ ہی سکون سے گزرا ،پہلے ساس تو پھر سسر نے جہیز پر طعنوں کے تیر برسائےپھر میرے کا م پر اعتراضات اٹھانے شروع کرد یئے،سسرالی استعمال کی کوئی چیز خراب ہونے پرساس سسر یہ کہہ کر میرے کانوں میں سیسہ انڈیلتے رہے کہ جہیز کا سامان سمجھ کر استعمال کرتیں تو اتنی جلدی خراب نہ ہوتا،ساس میرے سامنے اور میرے رشتہ داروں کے سامنے بھی یہ بین بجاتی رہتی کہ ہم نے تو جہیز مانگا ہی نہیں تھا لیکن ثانیہ کے والدین کو تو عقل کرنی چاہیئے تھی ؟انھیں نہیں پتہ کہ عزت کیسے کروائی جاتی ہے؟ ساس سسر میرے سامنے یہ گردان کرتے رہتے کہ تمہاری اسناد ہم نے چاٹنی ہیں ؟ تمہاری کمائی ہم پر حرام ہے،ہاں اگر کمیٹی ڈال کر تم نے گھر پر چند لاکھ روپے لگا دیئے ہیں تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑا ؟ ساس سسر اکثر رشتہ داروں کے ذریعے میرے والدین تک بھی یہ زہریلے پیغامات بھجواتے رہتے کہ ہم نے کونسی اسکی تنخواہ پر نظر رکھی ہوئی ہے؟ ثانیہ نوکری اپنے لئے کرتی ہے تو بچے بھی خود پالے،جبکہ اسی چھت تلے ساس سسر کی اپنی شادی شدہ بیٹی بھی دو بچوں کے ہمراہ رہ رہی ہے، وہ بھی نوکری کرتی ہے لیکن اسے ہر قسم کا استثنیٰ حاصل ہے،اس پر تو صبح ناشتہ بنانے ، برتن دھونے اور رات کو کھانا بنانے جیسی کوئی پابندیاں نہیں ہیں، اس کیلئے اس کے ماں باپ اور ملازمہ چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں جبکہ میں چونکہ بہو ہوں اس لئے میں نہ کسی جسمانی راحت اور نہ ذہنی سکون کی حقدار ہوں،ماں باپ کے حقوق بارے تو ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن ماں باپ کے فرائض بارے بات کریں تو گستاخ ، بدزبان اور دوزخی جیسے القاب سننے کو ملتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا اللہ میاں ایسے ساس سسر کے کہنے پر انکی بہوؤں کو دوزخ میں بھیج دیں گے؟ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ہچکیاں لیکر رونا شروع ہوگئی، وطن عزیز میں کتنی ایسی اور ثانیائیں ہیں جو سسک سسک کرسسرال میں یا پھر طلاق لیکر میکے میں زندگی گزار رہی ہیں یا پھر قبروں میں دھکیل دی گئی ہیں،جس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جن ثانیہ بیٹیوں کی دنیا ہی جہنم بن گئی اس میں ان کا ذاتی کتنا قصور ہے؟ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بیٹا ہو یا بیٹی ان کا ماحول اورتعلیم و تربیت ہی طے کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اگر بیٹی پڑھنے سے منع کردے تو اسے ہنر مند بنانا بھی انتہائی سود مند ہوتا ہے جس ان کی افادیت اور معاشی ضرورت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے، معاشی طور پر مضبوط بیٹی نفسیاتی طور احساس کمتری اور بزدلی کے فیز سے نکل آتی ہے جس کی بنا پر وہ کسی کیلئے آسان شکار نہیں بن پاتی ہے، والدین ثانیہ بیٹیوں کو اس قدر بہادر، متوازن اور سمجھدار بنا دیں کہ وہ جان لیں کہ وہ اتنی آسان موت مرنے کیلئے پیدا نہیں ہوئیں ،ہر ثانیہ بیٹی کو کسی بھی ناانصافی پرآواز اٹھانے اوراپنا حق لینے کا پورا حق حاصل ہے،پاکستانی معاشرے میں بیٹی کی شادی میں والدین اور بڑے بہن بھائیوں کا کردار بہت کلیدی ہوتا ہے،لیکن اس ضمن میں والدین کا فیصلہ ہی آخری ہونا چاہیے کیونکہ عمومی طور پر ان کی رائے میں حسد یا جانبداری کا کوئی پہلو نہیں ہوتا ہے،اس کے باوجود اگر کسی ثانیہ بیٹی کا خاوند یا سسرال بد طینت نکل آئیں تو والدین اپنی بیٹی کی موت کا انتظار نہ کریں بلکہ اسے گھر لے آئیں اور اسکی دوسری شادی کروادیں ،یہاں ویمن پروٹیکشن کے محکمے کو اضافی ذمہ داریاں دینا چاہیئں کہ وہ شادی شدہ لڑکیوں کی شکایت پر سسرالیوں کیخلاف فوری کارروائی کریں اور لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔