انقلاب کی اصطلاح ایک وسیع تر مفہوم کا احاطہ کرتی ہے۔اس مفہوم کو پوری صحت کے ساتھ سمجھے بغیر کوئی ایسا خیال تحریر میں نہیں لایا جا سکتا جس کا تعلق انقلاب اور روح انقلاب سے ہو، انقلاب کا مفہوم تغیر و تبدل، قانون قدرت کے تحت معروضی حالات یا شکل و صورت میں تبدیلی، یا نئی شکل تیار کرنا ہے۔اس دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت سارے انقلاب برپا ہوئے ہیں. ہر نئے آنے والے انقلاب نے نئی صف بندیوں کو جنم دیا۔کہیں انقلاب فرانس ،کہیں روسو اور والٹیئر کا آزادی کا انقلاب، کہیں سوشلسٹ انقلاب جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا خون بہایا گیا۔ تاریخ نے جس کو سرخ انقلاب کا نام دیا، کہیں سیکولر انقلاب، کہیں کمیونزم کا انقلاب، کہیں جمہوریت کی نیلم پری، اور کہیں نام نہاد اسلامی انقلاب ،ان سب کا نتیجہ کیا ہوا یہ انقلابات اپنے ہی بچوں کو زندہ نگل گئے۔ گلوٹین کلچر جو کئی دہائیوں تک انصاف کی گردن کاٹتا رہا اور بلآخر جس کو نپولین بوناپارٹ کی فوجی آمریت نے کچل کر رکھ دیا۔کیوبا کا انقلاب ،جنوبی امریکی ممالک میں چے گویرا کی یلغار ،جیسا بھی انقلاب ہو انقلاب کے نام پر لاکھوں جانوں کا خون بہایا گیا۔ ان تمام تر انقلابات میں وہ لوگ بھی مارے گئے جو انقلاب کے نعرے سے واقف بھی نہ تھے۔ یہ سب انقلابات دنیائے آب و گل کے باسیوں کو حریت فکر، آزادی افکار، امن و آشتی، اخوت و بھائی چارہ، مساواتِ ابدی، حق گوئی اور خدا جوئی عطا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ دنیا آج انگار وادی کا روپ دھار چکی ہے مگر کوئی انقلاب انقلابِ محمدی کی مثال تک نہیں پہنچ سکا۔
انقلابِ محمدی ایک ایسا انقلاب جس نے کائنات کے ذرّے ذرّے کو روشن کر دیا۔جو اس دنیا میں موجود تمام تر حکومتوں کے لیے ،تما م تر انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس میں کسی ایک انسان کا خون بھی نہ بہایا گیا۔اس انقلاب کی داستان کچھ یوں ہے۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں یہ انقلاب عرب کی سر زمین سے نمودار ہوا اور اپنے مثبت اثرات پوری دنیا کو دکھاتا ہوا قیامت تک اس دنیا میں موجود سب انسانوں کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ساتویں صدی قبل مسیح جب حرص و ہوا کے لالچ اور فانی لذتوں کے انہماک سے دنیا کی اخلاقی حالت بالکل تبا ہ ہو چکی تھی اغراض و اوہام کی تہ بہ تہ مادی کثافتوں کے نیچے دین سماوی کی لطیف روحانیت دب کر رہ گئی تھی۔آسمانی کتابوں کے چہرے مسخ کئے جا چکے تھے۔ہندی یونانی رومی اور ایرانی عقائد و ادیان سسکیاں لیتی ہوئی انسانیت کو امن و رحمت کا پیغام دینے سے قاصر تھے۔ہند میں برہمنیت کے سیلاب نے نقش گوتم کو مٹا ڈالا۔روح القدس کی تعلیمات پاپائیت اور جبرو استبداد کی داروگیر میں گھر کر صرف کتاب مقدس کی زینت بن کر وہ گئیں۔جزیرہ نما عرب کے بسنے والے خلیل اللہ کی روشن تعلیمات فراموش کی جا چکیں وادی سینا یہود کی آماجگاہ بن کر رہ گئی کلیم اللہ کے فرمودات ثواب اور صرف ثواب کی باتیں ہو کر رہ گئے۔ان روح فرسا حالات میں ایسے نبی کی ضرورت تھی جو صاحب ِ شمشیر بھی ہو اور گوشہ نشین بھی مفلس و قانع بھی ہو اور غنی دریا دل بھی صاحب محراب و منبر بھی ہو اور نمونہ صدق و صفا بھی ہو۔
ایسے میں دنیا کا سب سے بڑا ہادی ،لاز وال انقلاب برپا کرنے والا ،سب انسانوں سے بر گزیدہ انسان مبعوث ہوا۔جنﷺ کی جبینِ تابناک سے نور حقیقت کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔جس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر قیصر و کسریٰ کے تحت لرز گئے ،استبداد و استعمار کی زنجیریں کٹ گئیں ،رنگ و نسل کی تمیز مٹ گئی ،انسانیت کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا، دکھی انسانیت نے سکھ کا سانس لیا ،انصاف کی باد ِ صبا چلنے لگی ،دنیا کے سب سے بڑے مبلغ اور داعی کی تعلیمات نے انسان کو بدل کر رکھ دیا۔ظاہر وباطن نے ایک ہی رنگ اختیار کیا۔آپ کی تعلیمات سے خیالات بدل گئے ،عادات و اطوار بدل گئیں ، نگاہ کا زاویہ تبدیل ہو گیا ،رسوم و رواج بدل گئے ،حقوق و فرائض کی تقسیم ،خیر و شر کا معیار ، حلال و حرام کے پیمانے سب بدل گئے۔دستورو قانون بدل گئے ،جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے ،معیشت ،معاشرت ،تمدن غر ض ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ دنیا کا یہ پہلا انقلاب جس میں صرف اور صرف خیر و فلاح نظر آئی کسی گوشے میں کوئی شر باقی نہ رہا ، کسی کونے میں کوئی فساد ، بگاڑ ، اُلجھن کچھ باقی نہ رہا۔ہر طرف تعمیر ہی تعمیر ، ارتقاء ہی ارتقاء ،اور محبت ہی محبت عام ہو گئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس تیس سالہ انقلاب نے صرف امن ہی امن کا درس دیا۔
تو پیارے مسلمانو آج اس عظیم انقلاب کی ضرورت دوبارہ آن پڑی ہے کہ ہم واعتصموا بحبل اللہ کابھولا ہوا سبق پھر سے یاد کر لیں۔ یاد رکھیں جب تک ہم انقلاب محمدی کو اپنے لیے بہترین نمونہ نہیں بنا لیتے تب تک ہم نا کام ہیں۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان باہمی نفرتیں ختم ہو جائیں ، نااْمید ی شکست خوردگی کا نام و نشان نہ رہے ،احساسِ کمتری جیسی مہلک بیماری سے ہمیں نجات مل جائے ، تمام سماجی ،معاشی ،اقتصادی ،معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے ،اور ہم بحیثیت قوم دلوں کو فتح کر لیں تو ہمیں امن کے مسیحا سید المرسلین کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا وہ ہی وہ ہی اعمال و افعال اپنانے ہوں گے جنہوں نے اس دنیا کا سب سے بڑا ، لازوال اور عظیم ترین انقلاب برپا کیا۔
لوٹ جا عہدِ نبی ﷺ کی سمت اے رفتارِ جہاں
مری درماندگی کو ارتقاء درکار ہے