جیل میں بند ہوں مجھے کیا معلوم باہر کیا ہو رہا ہے۔ قیدی مرشد کا بیان
وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کا پھیلایا ملبہ ہمیشہ پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو صاف کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر نجانے کیوں وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان کی زبان بے قابو ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ان کے مرشد کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ بعد میں شور ہوتا ہے تو یوٹرن لیا جاتا ہے یا معذرت کر لی جاتی ہے۔ علی امین گنڈا پور نے خواتین اور صحافیوں کے حوالے سے جو کہا وہ کسی وزیر اعلیٰ کی نہیں کسی ناخواندہ ریڑھی والے کی زبان ہو سکتی ہے۔ ویسے تو باقی باتوں میں کہا جاتا ہے کہ مرشد کو سب کا علم ہوتا ہے۔ ان کی مرضی سے ہر کام ہوتے ہیں۔ مگر جب ان سے گزشتہ روز کے جلسے کی تقریروں کا پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو وہ بے نیازی سے بولے ’’میں تو جیل میں ہوں مجھے کیا پتہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ کیا باقی اطلاعات دینے والوں نے نہیں بتایا کہ جلسے میں کیسی تقاریر ہوئیں۔ وفاقی دارالحکومت میں مرکز کو للکارا گیا۔ بنگلہ دیش سے بھی برے انجام کی دھمکیاں دی گئیں جو خود لاسٹک پہنتے ہیں انہوں نے پتلونیں اور شلواریں گیلی کرنے کی باتیں کیں۔ یہ تو ہرگز اچھی بات نہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا
شیشے کے گھر میں بیٹھ کے پتھر ہیں پھینکتے
دیوار آہنی پہ، حماقت تو دیکھئے
کیا سیاستدانوں کا یہ انداز ہوتا ہے کہ 15 لاکھ فوج کے مقابلے میں کپتان کے 25 لاکھ افراد کو لانے کی باتیں کریں۔ اب مرشد خدا جانے بے خبر ہیں یا باخبر ہیں۔ انہیں ہی حالات کا احساس کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وہ کوئی کھلنڈرے کھلاڑی نہیں ہیں۔ ایک بڑی جماعت کے رہنما ہیں۔ اب دیکھ لیں صحافی اور خواتین آپ کے خلاف یک زبان ہو کر معافی طلب کر رہی ہیں۔ کیا یوٹرن لے کر معافی مانگنے سے بہتر نہیں کہ ایسے بیانات دینے والوں کی سرکوبی کی جائے۔
حکومتی اتحاد کا بڑا اکٹھ، پی پی ایم کیو ایم اور باپ سمیت نون لیگ کے تمام اتحادیوں کی شرکت
اب لاکھ حکومتی اتحادی جماعتیں ناں ناں کہیں مگر کوئی بات تو ایسی ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اپوزیشن والے تو پہلے ہی خوفزدہ ہیں کہ پارلیمنٹ میں کہیں مناسب ووٹ ملنے کے بعد کوئی آئینی ترمیم منظور نہ ہو جائے۔ جس کو وہ روکنے سے قاصر ہو ں وہ جانتے ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ بجلی انہی کے آشیانے کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اب گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے اتمام حجت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو منانے کی بھرپور کوشش کی اور نجانے کون کون سے مجرب سیاسی نسخے استعمال کر کے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی مگر کمان سے نکلا تیر اب واپس کہاں آ سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ میں تقریر ان کی صدر اور وزیر اعظم سے سیاسی مفاہمت کا کھلا اظہار تھا۔ اب گزشتہ شب ایک بار پھر بابائے مفاہمت نے پہلے اپنی پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو ارجنٹ اسلام آباد بلایا اور رات کو تمام ارکان کے اعزاز میں شاندار عشائیہ دیا گیا جس میں ہونے والی آئینی سیاسی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اب وہی غالب والی بات سامنے آ رہی ہے کہ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
حالات ایک نئی کروٹ لیتے نظر آ رہے ہیں، جن لوگوں نے ان ترامیم کی مخالفت کرنی ہے وہ اب خود اسی ترمیم کے تحت ضمانت اور رہائی کی درخواستیں جمع کرا رہے ہیں۔ مگر اس وقت منفی سیاست اور بیان بازی ایک بار پھر بند گلی کی طرف جا رہی ہے۔ جوں جوں سردیاں نزدیک آ رہی ہیں سیاسی موسم گرم اور بے رحم ہوتا نظر آ رہا ہے جبکہ اس موسم میں تو راتیں سرد ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر اس موسم میں بھی ماتھے پر پسینہ آنے لگے تو ’’سمجھو معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘
آلوئوں میں بھر کر 5 کلو ہیروئن سری لنکا بھیجنے کی کوشش ناکام
سب سے پہلے تو ان زرعی سائنسدانوں کو سند امتیاز عطا کی جائے، انہیں سونے میں تولا جائے جنہوں نے آلوئوں کی یہ جدید اور مہنگی فصل کاشت کی ہے۔ کیونکہ آج تک کسی ملک کے زرعی سائنسدانوں نے ایسی آلو کی فصل تیار نہیں کی جس میں ہیروین بھری ہو۔ یہ تو خدا غارت کرے مخبری کرنے والوں کو جنہوں نے اس کی اطلاع کر دی اور یوں یہ آلوئوں میں بھر کر یا چھپا کر 5 کلو ہیروئن سری لنکا بھیجنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ یوں ایک نئی ایجاد کے اڑنے سے پہلے ہی پر کتر دئیے گئے۔
نجانے کیسے کیسے شیطان دماغ ہمارے ہاں کام کرتے پھرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کبھی کتابوں میں کبھی جوتوں کے تلووں میں سوٹ کیسوں کے خفیہ خانوں میں اور کھانے پینے کی چیزوں میں ہیروئن بھر کر باہر لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب دیکھ لیں یہی کام کبھی آموں میں کبھی آلوئوں میں کس مہارت سے ہیروئن بھر کر کیا جا رہا ہے۔یہ ہیروئن سری لنکا سمگل کی جا رہی تھی۔ مگر اس سے پہلے ہی کراچی میں اس کنٹینر پر چھاپہ مار کر اینٹی سمگلنگ کے عملے نے سمگلروں کی سونے کی اس لنکا کو کراچی میں ہی جلا دیا۔ کروڑوں روپے مالیت کی ہیروئن پکڑے جانے سے تو ان آلوئوں کے مالکان کے صدمہ سے حواس ہی مختل ہو گئے ہوں گے۔ اب قانون نافذ کرنے والے یہ پتہ لگائیں کہ یہ مال کس نے کہاں سے بک کرایا اور اس نے کہاں سے خریدا یا حاصل کیا۔ یہ زہر لوگوں کی رگوں میں اتارنے والے انسانیت کے قاتل ہیں۔ انہیں تو زہر کا ٹیکہ لگا کر یا پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر اس زندگی کے بوجھ سے آزاد کرنا بھی کارِ ثواب ہے اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
شمالی کوریا میں سیلاب سے پہلے حفاظتی انتظامات نہ کرنے پر 30 سرکاری افسران کو پھانسی
اس خبر سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جن اقوام نے ترقی حاصل کی ہے وہ صرف کرپشن کے خلاف بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے اس کا تدارک کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب چین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں ہر برائی کی سزا گولی ہے۔ شاید یہ سچ ہی ہو۔ جبھی تو وہاں دیکھ لیں ڈیڑھ ارب کی آبادی کے باوجود ترقی کا سفر جاری ہے۔ کیونکہ حرام خوری کی تمام راہیں مسدود ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ سب راہیں ناصرف کشادہ اور کھلی ہیں بلکہ بڑی حد تک محفوظ بھی ہیں۔ تا کہ اس پر سفرکرنے والے محفوظ رہیں۔
اب شمالی کوریا کی اس خبر کے بعد کیا معلوم ہمارے ہاں بھی تبدیلی آئے اور پہلے ٹیسٹ کے طور پر چونکہ ہمیں بھی سیلاب کا سامنا رہتا ہے۔ تو وہ حکومتی ادارے جو اس پر قابو پانے کی مد میں سالانہ کروڑوں اربوں روپے ڈکار لیتے ہیں ان کا ریکارڈ چیک کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جن علاقوں میں یہ بھاری رقم خرچ ہوتی ہے کیا وہاں سیلاب سے بچائو کا بندوبست ہوا یا نہیں۔ اگر ہوا تو خیر ہے نہیں ہوا تو ان تمام محکموں کے افسران اور اس کے ذمہ داران کو شمالی کوریا کی طرح پھانسی پر ٹانگا جائے یا پھر چین کی طرح گولی مار کر سپرد قضا کیا جائے۔ یہ گولی سر درد یا بخار والی گولی نہ ہو حقیقی گولی اندر اور دم باہر والی گولی ہونی چاہیے۔ موت کا خوف ہی شاید ان کرپٹ لوگوں کو مزید کرپشن سے روکے۔ مگر امید تو نہیں کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمیں جس برائی سے روکا گیا ہے جہنم کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ ہم وہ سب کام نہایت ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور بابر کا ’’عالم دوبارہ نیست‘‘ والا فلسفہ بگھارتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭