پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتاریوں پر سپیکر کی برہمی، انکوائری کا حکم

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کا نوٹس لے لیا۔ سپیکر نے پروڈکشن آرڈر کے ذریعے آئی جی اسلام آباد کو تمام گرفتار ارکان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں سپیکر نے  پارلیمنٹ ہاؤس سے ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاریوں کے واقعہ پر کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس پر  سٹینڈ لینا پڑے گا، اگر کوئی ملوث ہوا تو ایف آئی آر کٹوائیں گے۔سپیکر نے آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی آپریشنز کو فوری طلب کر لیا۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ارکان پارلیمنٹ کی میٹنگ ہوئی۔ علی محمد خان، اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر، محمود خان اچکزئی سپیکر چیمبر میں موجود تھے۔ میٹنگ میں واقعہ پر مشاورت کی گئی۔مزید برآں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کے معاملہ پر سارجنٹ ایٹ آرمز کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔  کمیٹی 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرے گی۔      پارلیمنٹ ہاؤس سے پی ٹی ائی کے لیڈروں کی ہونے والی گرفتاریوں کی کڑیاں آٹھ ستمبر کے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے جا ملتی ہیں۔اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے جلسے کی مشروط اجازت دی گئی تھی جس کے مطابق جلسے کا وقت چار بجے سے سات بجے تک اور اس کے لیے ایک روٹ بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔یہ جلسہ  رات گئے تک جاری رہا اور روٹ کی بھی مبینہ طور پر کچھ لوگوں کی طرف سے پابندی نہیں کی گئی۔انتظامیہ کے مطابق جلسے میں جانے والے  کچھ لوگوں کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ان وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف کی قیادت پر مقدمات درج کرنے کا فیصلہ ہوا۔اس کی اگلی رات پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتاریاں کی گئیں۔گرفتار ہونے والوں میں بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چٹھہ ممبرانِ اسمبلی ہیں جبکہ شعیب شاہین کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ بعد ازاں  بیرسٹر گوہر کو رہاکردیاگیا۔شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر دے دیا گیا جب کہ دیگر کا آٹھ روز کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا۔گرفتار کیے گئےپارلیمنٹیرین کے سپیکر کی طرف سے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ہیں۔سپیکر کی اجازت کے بغیر پارلیمنٹ کے ایریا سے کسی  رکن کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو پولیس نے نہیں، نقاب پوشوں نے حراست میں لیا تھا۔حقائق تک پہنچنے کے لیے سپیکر نے قومی اسمبلی کے تمام داخلی و خارجی راستوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوا لی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی علی محمد خان نے  واقعے کی تمام فوٹیجز سپیکر کو فراہم کر دیں۔ سپیکر نے آئی جی اسلام آباد سے تمام واقعات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ممبران کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں کروں گا۔ جن ارکان کو بھی گرفتار کیا ہے ان کو رہا کیا جائے ۔سپیکر ایاز صادق بلاشبہ  پارلیمنٹ کے نگہبان  کا  کردار ادا کر رہے ہیں۔سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں پر حکومت اور اپوزیشن میں گرما گرمی ہوئی۔  پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا،  یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔ اس پر آپ کو سنجیدہ انکوائری کرکے سنجیدہ ایکشن لینا پڑے گا۔جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جب آپ کہیں گے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں، تو اس کا کیا ردعمل آئے گا؟۔ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ میں ہوں تو پاکستان ہے یہ اختلاف رائے نہیں، کچھ اور ہے۔ آج بھی موقع ہے اڈیالہ جیل جا کر قیادت کو سمجھائیں۔رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفی کمال نے کہا  کہ پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا ہے کہ پارلیمان کے اندر جو کچھ بھی ہوا وہ جمہوریت پر حملہ ہے۔ نو مئی  پاکستان پر حملہ تھا تو یہ بھی پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہوا ہے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ  غیرجمہوری قوتوں کی لڑائی پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن کل جو کچھ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جو اپنے لیڈر کو چھڑانے نکلے تھے وہ خود بند ہو گئے۔ایک نام نہاد وزیراعلی نے جلسے میں اداروں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی۔ آٹھ ستمبر کے جلسے کے دوران اداروں، حکومت اور صحافیوں کے بارے میں سخت زبان اور الفاظ استعمال کیے گئے اس پر تحریک انصاف کے کچھ لیڈروں کی طرف سے معذرت بھی کی گئی ہے۔تحریک انصاف کا 22 اگست کو ترنول اسلام آباد میں جلسہ ہونا تھا۔ بانی تحریک انصاف عمران خان کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ رابطہ کیا تو 22 اگست کا جلسہ ملتوی کر دیاگیا۔میڈیا پر بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین رابطوں کی خبریں آ رہی تھیں۔ اب  گرفتاریوں کے بعد ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیاہے ۔انہوں نے کہا کہ گنڈاپور کے بیان پر معافی مانگنے والے بزدل ہیں وہ پارٹی چھوڑ دیں۔محسوس یہی ہو رہا ہے کہ دو طرفہ ضد اور انا سیاست اور سسٹم کو بند گلی کی جانب دھکیل رہی ہے ۔فریقین ہوشمندی سے کام لیں ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتاریوں سے دور آمریت کی یاد تازہ ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا منصب گالی گلوچ اور دھمکیوں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔رویوں میں مثبت تبدیلی سے ہماری سیاست درست سمت اختیار کر سکتی ہے۔سیاست میں انا ضد اور ہٹ دھرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...