وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی جس قدر جانفشانی سے بلوچستان میں امن وامان کے قیام سمیت بلوچ عوام کو جدید سہولیات کی فراہمی سمیت گڈ گورننس کے قیام کیلئے اقدامات کر رہے ہیں اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ان کو اگرچہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے اسی طرح اتحادی جماعت مسلم لیگ ن اور اسکے قائد ین بھی میر سرفراز بگٹی کی حمایت کررہے ہیں یہی نہیں مقتدر حلقوں کا جھکا ئو بھی میر سرفراز بگٹی کے حق میں محسوس ہوتا ہے جو یقینی طور پر خوش آئند ہے اور اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بلوچستان کی ترقی کی راہ ہموار ہورہی ہے چونکہ بلوچستان کا ہر مسئلہ وفاق کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی ترقی کا راستہ بھی بلوچستان سے ہی شروع ہوتا ہے اسلئے وزیر اعلی بلوچستان کی اہمیت کسی بھی طرح نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی نے بھی دہشت گردی اور بد امنی پر قابو پانے کیلئے جس فہم و فراست اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے و ہ یقینی طور پر قابل تحسین ہے قارئین بلوچستان ظاہری اعتبا ر سے جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکے علاوہ بھی بہت مسائل ہیں جو حکومتی توجہ کے متقاضی ہیں میر سرفراز بگٹی کو اس امر کا بھی ادراک ہے اسی لئے ڈی سی پنجگور کی شہادت سے پیدا ہونے والی انتظامی صورتحال کو بھی انتہا ئی احسن انداز میں نمٹا لیا ہے۔ بلوچستان میں مہنگائی میں کمی ہو یا عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ہو وزیر اعلیٰ بلوچستان اپنی ٹیم کے ہمراہ مصروف عمل ہیں اور کوئی بھی موقع ہو وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کوشاں نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے کہا کہ پاکستان سے جس نے وفا کی اللہ نے اسے عزت دی اور جس نے بیوفائی کی اس کو اللہ نے اسے رسواکیا، سول سروس میں خواتین مردوں کی نسبت بہتر کارکردگی دیکھا رہی ہیں صوبے میں پانچ خواتین ڈپٹی کمشنر جبکہ ایک اسسٹنٹ کمشنر ہیں تمام خواتین مردوں کی نسبت ایمانداری اور جانفشانی سے کام کر رہی ہیں ، گرلز کالج میں پروفیسر ناظمہ طالب کے نام پر بلاک بنائیں گے۔یہ بات انہوں نے گورنمنٹ گرلزپوسٹ گریجوایٹ کالج کوئٹہ کے پہلے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی کانووکیشن میں صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی،کالج اساتذہ اور گریجوایٹس طالبات نے شرکت کی تقریب میں بی ایس پروگرام کے 15مختلف شعبوں سے فارغ التحصیل 381 پاس آوٹ گریجوایٹس میں گولڈ میڈلز اور اسناد تقسیم کی گئیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ دین میں مرد و عورت کی تفریق کے بغیر علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے معاشرہ اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک خواتین تعلیم حاصل نہ کر پائیں۔انہوں نے کہا کہ سول سروس میں خواتین مردوں کی نسبت بہتر کارکردگی ثابت کر رہی ہیں صوبے میں پانچ خواتین ڈپٹی کمشنر جبکہ ایک اسسٹنٹ کمشنر ہیں تمام خواتین مردوں کی نسبت ایمانداری اور جانفشانی سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین اپنے ملک کی خاطر ایمانداری سے کام کریں تاکہ معاشرہ ترقی کرے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ا?گے نہیں بڑھ کرسکتا اور معاشرہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک خواتین پڑھی لکھی نہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے تعلیمی شعبے میں بے نظیراسکالرشپ پروگرام کا آغاز کیا، جس کے تحت دنیا کی 200بہترین جامعات میں خواتین کو پڑھنے کے لئے بھیجا جائے گا ، ہر ضلع سی10 ٹاپ کرنیوالی بچوں اور بچیوں کو ہرشعبے میں تعلیم کے اخراجات اور سول شہداء کے بچوں کے تعلیمی اخراجات حکومت بلوچستان برداشت کریگی۔انہوں نے کہا کہ جس نے پاکستان سے وفا کی اللہ نے اسے عزت دی،اور جس نے بیوفائی کی اس کو اللہ نے رسواکیا جس کی واضح مثال بنگلہ دیش میں دیکھنے کو ملی ہے۔وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ کالج میں شہید پروفیسر ناظمہ طالب کی یاد میں ایک ایجوکیشن بلاک بناکردیں گے،اس موقع پر وزیر اعلی نے گرلزکالج کی طالبات اوراساتذہ کیلئے 500 لیپ ٹاپس دینے کا اعلان کیا۔
بلوچستان اسمبلی نے بھی خواتین کے حوالے سے انتہا ئی اہم اقدامات کئے ہیں ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی ، ویمن پارلیمانی کاکس کی چیئرپرسن غزالہ گولہ نے کہا ہے کہ خواتین کے مسائل کے حل کیلئے موثر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، خواتین ارکان اسمبلی خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی اسمبلی بلوچستان میں خواتین پارلیمانی کاکس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں خواتین پارلیمنٹرینز نے شرکت کی۔ میٹنگ کے دوران غزالہ گولہ نے قانون سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کی اہمیت اور ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کے اہم کردار پر زور دیا۔ شرکاء نے بلوچستان میں خواتین کو متاثر کرنے والے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا جن میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی طور پر بااختیار بنانا شامل ہیں۔
خواتین پارلیمانی کاکس نے ان چیلنجوں سے نمٹنے اور صوبے میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔غزالہ گولہ نے بامعنی تبدیلی لانے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے تعاون اور سہولت کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ اجلاس بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کی آواز کو مضبوط کرنے اور مثبت تبدیلی کے لیے باہمی تعاون کے ماحول کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اجلاس میں ممبران شاہدہ رؤف ، ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی ، کلثوم نیاز بلوچ، ہادیہ نواز، ، صفیہ فضل ، فرح عظیم شاہ ، سلمی بی بی ، سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ ، بلوچستان کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین نے شرکت کی۔وزیراعلیٰ کی قیادت میں جس طرح وہ خود اور ان کی ٹیم بلوچستان میں خواتین کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں یہ پیپلزپارٹی کا روشن باب ہیں اور وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی اسی پر عمل پیرا ہیں خاص طور پر ان اقدامات میں بے نظیر بھٹو شہید کی جھلک نظر آتی ہے اور بلوچستان کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ بلوچ خواتین کو قومی دھارے میں کردار ادا کرنے کیلئے اور ان کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے ایسی کوششیں قابل تحسین ہیں۔