ملکی سیاست کی کشتی ایک بار پھر بھنور میں پھنسنا شروع ہوگئی ہے جوموجودہ صورتحال کے لئے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے جلسے میں کے پی کے کے وزیراعلی علی امین گنڈا پور کی تقریر جو کہا جا رہا ہے کہ مکمل سکرپٹڈ تھی، نے کئی سوالات کو جنم دیاہے ، کہ کیااس وقت دمادم مست قلندر تو نہیں ہونے جارہا ؟کیا 2014 کے اسلام آباد دھرنے والا ماحول تو نہیں بنایا جارہا ؟کیا قبل از وقت الیکشن کی طرف معاملات تو نہیں بڑھ رہے ؟ا موجودہ حکومت کو دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار قرار دینے کی کوششیں باور ثابت ہونے لگی ہیں ؟2014میں بھی ایسا ہی ماحول تھا جس میں عمران خان(پی ٹی آئی)،طاہر القادری(پاکستان عوامی تحریک)اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھ گئے تھے اور ان کو عوامی مسلم لیگ (شیخ رشید)،مسلم لیگ ق (چودھری شجاعت حسیم،چودھری پرویز الہی )،مجلس وحدت المسلمین(راجہ ناصر عباس )،اور جے یو آئی ۔ایس(مولانا سمیع الحق) کی حمایت حاصل تھی اور اسلام آباد دھرنے اور وکی لیکس سے پیدا شدہ صورتحال نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا جس کے بعد وزارت عظمی کی سیٹ شاہد خاقان عباسی کے حصے میں آئی تھی ۔فرق صرف ایک چیز کا ہے کہ اس وقت عمران خان دھرنے کو لیڈ کررہے تھے اورخود احکامات دیتے تھے ،اب وہ جیل میں ہے اور تمام تر احکامات وہ اسی طرح اپنی باقی لیڈرشپ کو دیتے ہیں ۔ان کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کی لیڈرزشپ دوہزار چودہ کے دھرنے کو دہرانے کی مکمل کوشش کررہی ہے ۔اس قسم کا ایک ٹریلر حالیہ پی ٹی آئی کے جلسے میں نظر آیا فرق یہ تھا کہ عمران خان کے حصے کی تقریر علی امین گنڈا پور نے کی ،مگر وہ تقریر کرنے کے بعد 8گھنٹے مکمل غائب رہے اور کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے الفاظ پر نادم ہونے کا ظہار کہیں خاص لوگوں میں کرلیا ہے ۔اب سیاسی حالات تو خراب ہیں اس میں کوئی شک نہیں مگر ایک بات تو سوچنے کی ہے کہ 2014میں پی ٹی آئی کا کہیں سے ’’کوئی مدد‘‘ تو مل رہی تھی جس پر انہوں نے اتنا لمبا دھرنا دیا ،پی ٹی آئی نے سونامی مارچ کا آغاز لاہور میں مینار پاکستان سے جلسے سے 14اگست کو کیا جس کا بعد میں نام بدل کر آزادی مارچ رکھ دیا گیا یہ آزادی مارچ ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوگیا پھر کہاں کس وقت حالات خراب ہوئے سب کو معلوم ہے۔اب آجائیں موجودہ حالات پر تو یہ بات وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ عمران خان نے چودہ حلقوں کے انتخابات پر سوال اٹھایا ،پھر سابق وزیراعلی پنجاب جنم سیٹھی نے ’’65‘‘ پنکچر بھی سامنے آنے لگے ،اس کے بعد 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیابی ملی ،مگرالیکشن کمشن کا اس وقت کے الیکشن میں’’آر ٹی ایس‘‘ سسٹم بیٹھ گیا جو شاید پی ٹی آئی کی کامیابی کی ضمانت بنا ،ا ب پی ٹی آئی کی قیادت 2024 کے سارے انتخابات پر سوال اٹھا رہی ہے اور موجودہ حکومت کو دھاندلی زدہ قرار دے چکی ہے مگر اب حالات یکسر تبدیل ہیں ،عمران خان کئی مقدمات میں جیل کے اندر ہے ،ملک میں 9مئی کا واقعہ ملکی تاریخ پر سیاہ دھبہ لگ چکا ہے اور ان الزامات کی زد میں پی ٹی آئی مکمل طور پر پھنس چکی ہے ۔تو کیاموجودہ پی ٹی آئی کی قیادت حالیہ جلسے کو ٹرننگ پوائنٹ سمجھ کر تحریک کا آغاز سمجھ رہی ہے ؟۔جس کے لئے انہوں نے 13 ستمبر بروز جمعہ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے اور ان کا اگلا ہدف پنجاب میں 21ستمبر کا جلسہ ہے ۔تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف سب سے زیادہ کریک ڈائون اور گرفتاریا ں پنجاب میں ہوئی ہیں چاہے وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد بننے والی18 ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت ہویامحسن نقوی کی پنجاب نگران حکومت ہو ۔تو کیا پی ٹی آئی کواب 21ستمبر کے جلسے کی اجازت پنجاب حکومت دے گی ؟۔ ایسا بالکل نہیں ہوگا مختلف حلقوں میں چہ میگیوئیاں ہورہی ہیں کہ پنجاب میں گرینڈ آپریشن کی تیاریاں شروع ہونے جارہی ہے اس کے لئے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ کون لیگ کی قیادت سے ٹاسک دیا جاچکا ہے جس کے لئے وہ تیاریاں کرنا شروع کردی ہیں ،اب پی ٹی آئی کے لیے پنجاب کا محاز آسان نہیں ہوگا اس لئے جو پی ٹی آئی کی قیادت سوچ رہی ہے کہ پنجاب سے ہم اگلا لائحہ عمل دیں گے اور دوبارہ متحرک ہوجائیں گے تو پنجاب نے اس کو روکنے کے لئے تمام تر تیارایاں مکمل کی ہیں ماضی میں پی ٹی آئی کی قیادت کو سب سے زیاد آزمائش کا سامنا پنجاب میں رہا تو اب اس سے زیادہ آزمائش یہاں سے شروع ہوگی کیونکہ پی ٹی آئی کی قیادت کی گرفتاریوں کا پلان بن چکا ہے اور اس کے لئے پنجاب پولیس نے ایک بار پھر کمر کس لی ہے ۔