8 ستمبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ نئی تلخیاں پیدا کرگیا جلسے کے این او سی کے اجراء میں پی ٹی آئی اور ضلعی انتظامیہ کئی مراحل سے گذرے اور دونوں میں طے پایا کہ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے جلسہ غروب آفتاب کے وقت ختم کردیاجائے گا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بھی جلسوں ریلیوں کیلئے نیا بل منظور کر لیا جس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو قانون کے نفاذ کیلئے بھرپور مینڈیٹ سونپ دیا گیا اور اس نئے قانون کے نفاذ کے بعد اسلام آباد کی حدود میں یہ پہلا سیاسی جلسہ تھا جس کیلئے وفاقی دارالحکومت کی بھرپور سیکیورٹی انتظامات کر رکھے تھے جبکہ تحریک انصاف حسب معمول سوشل میڈیا پر سرکاری مشینری کیساتھ باہمی اعتماد کے فقدان کو اجاگر کرتی رہی۔ بطور سیاسی جماعت بھی کوئی ایسا نمائندہ گروپ نہ بنایا گیا جو جلسہ کے انعقاد میں اور انتظامیہ اور پولیس کے درمیان رابطہ کار کا کردار اداکرتا۔الٹا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا جو نمائندہ جلسے کے ختم کرنے کے ٹائم سے آگاہ کرنے گیا اسے وہیں مبینہ طور پر روک لیا گیا۔
جلسہ عام میں ہمیشہ مقررین تیز اور جذبات سے بھرپور لب و لہجہ تو رکھتے ہی ہیں لیکن مقررین فری سٹائل ہوکر جوش خطاب دکھاتے ہیں تو اس کے بعد متعلقہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس ہمیشہ حرکت میں آتی ہیں پکڑ دھکڑ بھی ہوتی ہے جس کا خمیازہ اکثر اوقات عام پارٹی کارکن سے ہر لیول کی لیڈر شپ کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔سنگجانی جلسے میںوزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کیا گیا ان کی آمد پر کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا انہوں نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے صحافیوں کو کردار کشی کا نشانہ بنا ڈالاپھر اس کے بعد اگلے جلسے کیلئے پنجاب کا رخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ہم منصب وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے عملاً دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا اور اڈیالہ جیل میں اپنے قائد بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے بھی دوہفتے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے دما دم مست قلندر کا نعرہ بلند کرگئے۔
جلسہ این او سی کے مطابق سات بجے ختم ہونا تھاڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی یاددہانی کے باوجود ایسا نہ ہوسکا اسی دوران پی ٹی آئی کے کارکنان اور پولیس کے درمیان چونگی نمبر 26 ترنول میں اچانک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس چلانا پڑی دی اسی دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں کے بے دریغ پتھرائو سے ایس ایس پی سیف سٹی شعیب خان اہلکاروں سمیت شدید زخمی ہو گئے۔
جلسے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ نے جو زبان استعمال کی بلا شبہ وہ ان کے عہدے کی توہین ہے۔اسی لئے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے جلسے میں صحافیوں کے بارے میں الفاظ کے استعمال پر معذرت بھی کی ،جبکہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کے وہ ساتھ کھڑے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس بدامنی کا نوٹس لیا وزیر اطلاعات، عطاء اللہ تارڑ وفاقی اور وزیر امور کشمیر انجینئر امیر مقام نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے جلسے سے خطاب پر شدید ردعمل دیا اور کہا کہ محض ’’کی بورڈ‘‘ کے ذریعے انقلاب لانے والے عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکتے، پختون قوم روایات کی امین ہے ماں، بہن، بیٹی کے احترام کی پختون روایات صدیوں پر محیط ہیں ۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پختون قوم روایات کی امین ہے ۔جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا دہشت گردوں پر بات کرنے کی بجائے سٹیج پر چڑھ کر ایک خاتون کو للکارتا ہے ان میں اتنا دم نہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف بات کر سکیں پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اپنے 12 سالہ دور اقتدار میں ایک بھی معیاری منصوبہ نہیں لگایا، منافقت کی سیاست ان کا وطیرہ رہی ہے پختون ہمارے بھائی ہیں لیکن وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور ان کے نام پر ایک دھبہ لگانا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ناکام جلسہ پوری قوم نے دیکھ لیا ہے یہ کیسا انقلاب تھا جو صرف خاتون کو للکارنے آیا تھاانہیں جو روٹ دیا گیا تھاوہ کھلا تھا، انتظامیہ نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی سرکاری وسائل کے باوجود یہ جلسہ گاہ نہیں بھر سکے خود علی امین گنڈا پور دو گھنٹے کی تاخیر سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈڈ جماعت ہے حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار کے دیئے ہوئے بیانات پرارشد شریف نے ثبوتوں کے ساتھ پروگرام میں بتایا تھا کہ کس طرح امریکی نژاد یہودی انہیں فنڈنگ کر رہے ہیں اور اب ٹائمز آف اسرائیل نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلقات بہتر کر سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ آپ گولڈ سمتھ کے برانڈڈ لابیسٹ ہیں آپ اس لابی کا حصہ ہیں، ہم یہودی لابی کا سنتے تھے لیکن اب اسرائیل کے اخبار نے بھی کہہ دیا کہ یہ یہودی لابی کا حصہ ہیں پی ٹی آئی کو گالم گلوچ اور تشدد کے سوا کچھ نہیں آتا۔
اسلام آباد انتظامیہ کو کل کے جلسے میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا ادراک ہے۔ ان کی پارٹی کے لوگوں نے پرانی ویڈیوز ،فیک نیوز لگا کر انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی، میرا نہیں خیال کہ کبھی ’’کی بورڈ‘‘ سے بھی انقلاب آیا ہو۔ان کی آپس کی لڑائی کا بھی کارکنوں پر بہت اثر پڑا ہے، کل جلسہ کے لئے لوگ خود نہیں نکلے، انہیں زبردستی جلسے کے لئے لایا گیا تھا۔جبکہ پی ٹی آئی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے پولیس پر پتھرائو کروایا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ امیر مقام نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مشکل وقت کاٹا، یہ دلیر آدمی ہیں سات حملے برداشت کئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی محفوظ رکھی، ابھی بھی ڈٹ کر سیاست کرتے ہیں۔ مشکل دور میں جب انہیں انٹی کرپشن، نیب اور ایف آئی کے نوٹس آتے تھے اور ان پر پریشر ڈالا جاتا تھا کہ ن لیگ چھوڑ دیں انہوں نے اچھے برے وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا، ان پر ہمیں ناز ہے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کر رہی ہے،ایسی محاذ آرائی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا جائے یا استعفے دے کر گھر چلے جائیں، پارلیمان میں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں بات چیت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کیمروں کے سامنے بات کرنا ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہمارا لیڈر بھی دیکھ رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میںملک ڈیفالٹ کے دھانے پر تھا، 2018ء میں ڈالر 120 روپے کا تھا، پٹرول 125 روپے فی لیٹر تھا، ہم چار فیصد پر مہنگائی چھوڑ کر گئے تھے، 6 فیصد پر گروتھ ریٹ چھوڑ کر گئے تھے، اس کے بعد پنکی، گوگی اور کپتان…لوٹ کر کھا گئے پاکستان کا سلسلہ شروع ہوا اورعثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب لگایا گیا اور ایسی پوسٹیں بانٹیں گئیں جس طرح یہ مال غنیمت ہو۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی کہ سی پیک کہاں چل رہا ہے۔ انہوں نے گوادر اور نیشنل ایکشن پلان پر کوئی میٹنگ نہیں بلائی۔
انہوں نے طالبان کو بلا کر بسایا، اس وقت کے حکمران نے ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔
آج شہباز شریف کے دور میں مہنگائی سنگل ڈیجیٹ پر آچکی ہے، اس بات کا بھی انہیں غصہ ہے، یہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر ملک کو ڈیفالٹ کرانا چاہتے تھے، اب انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ مہنگائی سنگل ڈیجیٹ پر آ گئی ہے، برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہو گیا ہے اور انہیں غصہ اس بات کا ہے کہ وفاقی حکومت ڈیلیور کر رہی ہے ۔ مستقبل میں پالیسی ریٹ مزید کم ہوگا، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ ہم معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بنگلہ دیش کے شیخ مجیب سے اپنا موازنہ کرتے تھے یہ بنیادی طور پرمفاد پرست اور موقع پرست لوگ ہیں، ان کا جب دل کرے اداروں پر حملہ کرتے ہیں۔صحافیوں کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ رہا ہے، صحافی کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی، ان کے نظریات ہو سکتے ہیں، وہ کسی کو اچھے برے لگ سکتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے جلسے میں جو بات کی گئی یہ پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام صحافیوں اور میڈیا اداروں کے ساتھ یکساں سلوک رکھا ہے، میڈیا انڈسٹری کے اشتہارات بند نہیں کئے میڈیا ورکر کسی سیاسی پارٹی کا نہیں ہوتا، وہ روزی روٹی کمانے گھر سے نکلتا ہے، انہیں دھمکیاں دینے کی مذمت کرتے ہیں.