احتجاج جمہوریت کا حسن یا نظام کے لیے زہر قاتل!!!!!!

آٹھ ستمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں جس انداز میں تقاریر ہوئی ہیں اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ردعمل پر تو بات ہو رہی ہے لیکن کیا اس پر بات نہیں ہونی چاہیے جو آٹھ ستمبر کو ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں ہوا۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں یہ کہیں کہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے، ایک نظام حکومت ہے، ملک میں صوبائی حکومتیں ہیں، ایک وفاقی حکومت ہے، ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں یہاں تک کہ اپوزیشن بھی حکومت کا حصہ ہے، آپ سوچیں گے یہ کیسے ممکن ہے کہ اپوزیشن حکومت کا بھی حصہ ہے تو اس کی سب سے بڑی اور واضح مثال پاکستان تحریک انصاف ہے کیونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہ تو جز وقتی اپوزیشن ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر دیکھیں تو سب کہیں نہ کہیں انگیج یا پھر نظام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ پھر سیاسی جماعتیں احتجاج کے لیے کیوں سڑکوں پر ہیں، کیا سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں یا پھر ذاتی مسائل اور حکومت سے اختلافات کے باعث احتجاج کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ اگر چاروں صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں قائم ہیں، موجود ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی ہے پھر کسی بھی سیاسی جماعت کو اور بالخصوص وہ جماعت جو کسی حوالے سے حکومت کا  حصہ ہو وہ احتجاج کے ذریعے کیوں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ یہ تعین کرنا ہو گا کہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے یا جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے، ملک میں امن و امان کے مسائل ہیں، ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، کروڑوں بچے تعلیم کے بنیادی اور اہم ترین حق سے محروم ہیں، صحت اور سفر کی سہولیات غیر معیاری اور ناکافی ہیں۔ ان حالات میں سب احتجاج میں لگے رہیں گے تو کام کون کرے گا۔ اگر کسی کو احتجاج کا شوق ہے تو سب سے پہلے وہ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو، ریاست کو نقصان پہنچا کر پارلیمنٹ کے سائے میں کھڑے ہونے کی انوکھی خواہش تو صرف اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کو ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ پارلیمنٹیرینز کو اس حوالے سے قوم کی رہنمائی ضرور کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن اسمبلی کا حصہ بھی ہو اور سڑکوں پر بھی ہو، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ پر حکومت بھی کرے اور احتجاج بھی کرے، پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں میں بھی ہو اور ملک بند کرنے کے نعرے بھی لگائے رہی ہو۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ یعنی ایسے احتجاج کر کے ارکان اسمبلی خود ہی پارلیمنٹ کو بے توقیر کرتے ہیں۔ یعنی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی موجودگی میں وہاں مسائل حل کرنے میں ناکامی پر سیاسی جماعتیں احتجاج کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ قومی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور پھر کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ عجب جمہوری نظام ہے۔ برسوں کے مسلسل جمہوری عمل کے بعد آج بھی ہمارے سیاست دان اس نظام کی بنیادی چیزوں کو بھی نہیں سمجھ سکے۔ احتجاج بنیادی حق کے نعرے پر کروڑوں انسانوں کے بنیادی حقوق غصب کرنا یا اس میں رکاوٹ کھڑی کرنا کہاں کی جمہوریت ہے۔ ہم نے میثاق جمہوریت دیکھا، میثاق معیشت اور اب میثاق پارلیمنٹ کی باتیں ہیں سب کچھ بدل رہا ہے اگر نہیں بدل رہا تو سیاست دانوں کا رویہ ہے۔ کاش یہ بھی بدلیں، تقریر و تحریر سے نکل کر بھی کام کریں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اراکین اسمبلی کو چارٹر آف پارلیمنٹ کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ہماری قیادت بیٹھے یا نہ بیٹھے کیا ہم پارلیمنٹیرینز میثاق پارلیمنٹ پر سائن نہیں کر سکتے، کیا ہم پارلیمنٹ کے تقدس کی خاطر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، کیا ہم بہتری کی طرف نہیں جا سکتے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں جو واقعہ ہوا اس پر ضمیر کے مطابق آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ایکشن لیا، سارجنٹ ایٹ آرمز جس کی ذمہ داری ہوتی ہے پارلیمنٹ کی سکیورٹی کی اسے اور اس کے ساتھ جو لوگ تھے انہیں معطل کیا۔ بیرسٹر گوہر، آپ اجلاس ملتوی ہونے کے بعد میرے پاس آجائیے گا، آپ اپنے دوستوں کو بتاکر آ ئیے گا کہ آپ کوئی سازش کرنے نہیں آ رہے۔ 
سیپکر صاحب بھولے ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ ہم معاہدے کرنے میں تیزی دکھاتے ہیں تو معاہدہ توڑنے میں اس سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہیں۔ اگر بنیادی تربیت اور اخلاقی طور پر مضبوط ہوں تو ایسے معاہدوں کی ضرورت پیش نہیں آتی اور اگر آپ اخلاقی طور پر کمزور ہیں، اقتدار کی ہوس رکھتے ہیں تو کوئی معاہدہ ہمیں بداخلاقی اور عہد شکنی سے روک نہیں سکتا۔ یہی سیاسی قیادت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اچھے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں بانی چیئرمین سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی نے ماحول خراب کردیا دیا تھا۔ جو انہوں نے کیا اور ہم بھی وہی کریں گے تو کل آپ اور میں بھی جیل میں ہوں گے۔ آج سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے لیکن ہم نے اسی سیاست سے نوجوانوں کو روزگار اور معاشی انصاف دلوانا ہے۔ وفاق میں مسلم لیگ ن اور بلوچستان اور سندھ میں ہماری حکومت ہے، حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتا آ رہا ہوں، آپ کا لیڈر کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا کیس میرٹ پر لڑیں، میثاق معیشت کے اگلے دن ہی سازشیں شروع ہوئیں، افتخار چوہدری کے ذریعے سازش کی گئی۔ پی ٹی آئی ارکان آئیں،کمیٹیاں نہ چھوڑیں، اب تو یہ ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں اگر ایسے ہی چلنا ہے تو ٹھیک ہے۔ 
بلاول بھٹو زرداری، میاں شہباز شریف، مریم نواز شریف سمیت سیاسی قیادت ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ذاتی اختلافات کو بھلا کر حقیقی جمہوریت کا پیغام عام کرے۔ جمہوری نظام کو کاروبار یا صرف اقتدار میں رہنے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس طرح آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں اگر پاکستان تحریک انصاف سے بات چیت کرنا چاہتی ہیں تو پی ٹی آئی کو احترام کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے نظام کو چلانے میں ساتھ دینا چاہیے اگر وہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو پھر صوبائی حکومت چھوڑیں، قومی اسمبلی سے مستعفی ہوں اور عوام میں چلے جائیں۔ یہ دیکھ لیں ملک و قوم کا مفاد کس میں ہے، کیا ملک کے مسائل احتجاج، تشدد، عدم برداشت اور بدتہذیبی سے حل ہو سکتے ہیں۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے 
عمر  تنہا  کاٹ  دی  وعدہ  نبھانے کے لیے
عہد  باندھا  تھا کسی  نے آزمانے کے لیے 
یہ قفس ہے گھر کی زیبائش بڑھانے کے لیے
یہ  پرندے  تو نہیں ہیں آشیانے کے لیے 
کچھ دیے دیوار پر رکھنے ہیں وقت انتظار
کچھ دیے لایا ہوں پلکوں پر جلانے کے لیے 
وہ  بظاہر  تو  ملا تھا  ایک لمحے کو عدیم
عمر ساری  چاہئے  اس کو بھلانے کے لیے 
لوگ زیر خاک بھی تو ڈوب جاتے ہیں عدیم
اک سمندر ہی نہیں ہے ڈوب جانے کے لیے 
تو پس خندہ  لبی آہوں کی آوازیں  تو سن
یہ ہنسی تو آئی ہے آنسو چھپانے کے لیے 
کوئی غم ہو کوئی دکھ ہو درد کوئی ہو عدیم
مسکرانا پڑ ہی جاتا ہے زمانے کے لیے

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...