گنڈا پور کی ’’لانگ‘‘ ٹی پارٹی

ہائی ٹی تو ہوتی ہی ہے، ایک ’’لانگ ٹی‘‘ بھی ہوا کرتی ہے۔ یہ اب پتہ چلا ہے۔ لانگ ٹی سے مراد ایسی چائے ہے جسے پینے میں بہت لمبا وقت لگے۔ پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کو دو روز پہلے ایسی چائے پینے کا اتفاق ہوا۔ انہیں کسی نے چائے کے کپ پر بلایا۔ وہ گئے۔ کپ اتنا بڑا تھا کہ اسے پیتے پیتے گنڈاپور صاحب کو آٹھ گھنٹے لگ گئے۔ اس چائے کو پرائم ٹائم ٹی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے یعنی چائے پینے کا وقت ایسا اہم ، نازک اور ضروری تھا کہ اس دوران علاقے بھر کو جیمر کے ذریعے جام کردیا گیاتاکہ گنڈاپور صاحب کسی مداخلت کے بغیر، پوری توجہ اور یکسوئی سے چائے پی سکیں۔ محرم راز دروں فیصل واوڈا نے انکشاف کیا ہے کہ مہمان خصوصی کو اس دوران پیٹیز بھی کھلائے گئے۔ کیک رس یا بن مکھن بھی کھلایا جا سکتا تھا لیکن لگتا ہے پیٹیز کو اہمیت دی گئی۔ شاید گنڈاپور صاحب کو پیٹیز سے خصوصی رغبت ہو۔ پیٹیز کی نوعیت اور کوالٹی کے حوالے سے واوڈا صاحب نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ 
اطلاعات ہیں کہ میزبانان خصوصی نے مہمان خصوصی سے /8 ستمبر کو جلسہ عام منعقدہ مویشی منڈی سنگ جانی میں کی گئی ان کی تقریر پر خصوصی تبادلہ خیال کیا۔ بہرحال، تبادلہ خیال کی رپورٹ جب اڈیالوی صاحب تک پہنچی تو وہ بہت ناراض بلکہ مشتعل ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ سے میزبانان خصوصی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کے اس اعلان بائیکاٹ سے ہی میزبانان خصوصی کو پتہ چلا کہ مذاکرات کا کوئی سلسلہ چل رہا تھا جو اڈیالوی صاحب نے بند کر دیا ہے۔ اس سے پہلے یہ حضرات اس معاملے سے قطعی لاعلم تھے۔ 
بہرحال، اس اعلان کے حوالے سے اس فرسودہ اور بے ہودہ لطیفے کو یاد کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ کوئی صاحب میراث بیٹے کے رشتے کیلئے چودھری کے گھر جا پہنچے اور عرض مدعا کیا جس پر چودھری ناراض ہوا، اس نے پہلے تو صاحب میراث کی جوتوں سے طول طویل تواضع کی، پھر ملازموں سے کہہ کر اٹھا کر گلی میں پھینک دیا۔ صاحب میراث زخم سہلاتے ہوئے زمین سے اٹھا، کپڑے جھاڑے اور چودھری کے دربان سے مخاطب ہوا کہ جا کر چودھری صاحب کو کہہ دو کہ آج سے مذاکرات کا سلسلہ ختم! 
______________
گنڈاپور جب آٹھ گھنٹے تک چائے پیتے رہے اور اس دوران ان کے اور ان کے سٹاف کے فون نمبر جام رہے تو ملک بھر میں افواہیں پھیل گئیں کہ وزیر اعلیٰ صاحب کو اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ بات تھوڑی حیران کن تھی اس لئے کہ صوبہ پختونخواہ میں اٹھا لئے جاتے تو معمول کی بات سمجھی جاتی لیکن انہیں اسلام آباد سے اٹھا لیا گیا؟۔ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہرحال پی ٹی آئی اور پختونخواہ حکومت کے ترجمان اور نمائندے قطار اندر قطار اعلان کر رہے تھے کہ صاحب کو اٹھا لیا گیا ہے چنانچہ لوگوں نے اعتبار کر لیا۔ 
ان کی واپسی کے بعد پتہ چلا کہ سب افواہیں غلط تھیں ۔ پارٹی کے کچھ لوگوں نے گنڈاپور سے کہا، آپ پریس کانفرنس کر کے ٹھیک ٹھیک صورتحال عوام کو بتا دیں۔ لیکن ان کی یہ تجویز گنڈاپور نے مسترد کر دی اور فرمایا کہ موجودہ صورتحال میں ٹھیک ٹھیک صورتحال بتانا میرے اور پارٹی کے ’’قومی مفاد‘‘ کے خلاف ہو گا۔ چنانچہ ’’لانگ ٹی‘‘ کے ایشو پر ان کی طرف سے خاموشی ہے۔ کہتے ہیں یہ خاموشی ابھی ایک دو یا دو چار دن مزید جاری رہے گی۔ 
کچھ ماہرین امراض پراسرار کا کہنا ہے کہ یا تو یہ چائے کی تاثیر ہے یا پھر پیٹیز کی کہ صاحب پر خموشی طاری ہو گئی ہے۔ 
______________
گنڈاپور کے خطاب در جلسہ عام منعقدہ منڈی مویشیاں سنگ جانی کے حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پاک فوج کے بارے میں اپنی زبان کو یدطولیٰ کی طرح دراز کیا اور پنجاب والوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اپنی فوج کو سنبھالو، اسے ٹھیک کرو، اس کے جنرلوں کو ٹھیک کرو۔ 
اس خطاب سے غلط فہمی جو پھیلی وہ یہ تھی کہ شاید گنڈاپور صاحب دراصل کابل حکومت کے سفیر یا ایلچی کے طور پر خطاب کر رہے تھے۔ ظاہر ہے یہ تاثر درست نہیں۔ وہ افغان سفیر نہیں، وزیر اعلیٰ پختونخواہ کے طور پر ہی خطاب کر رہے تھے۔ دراصل ہوا یہ کہ خود گنڈاپور کو غلط فہمی ہو گئی۔ انہیں غلط فہمی یہ ہوئی کہ پاکستان الگ ملک ہے، اور ان کے زیر تسلط صوبہ کوئی الگ ملک۔ اور پاک فوج سے ان کا اور ان کی حکومت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ 
اطلاعات ہیں کہ ان کی اس غلط فہمی کا ازالہ لانگ ٹی والوں نے خصوصی پیٹیز کھلا کر مناسب طریقے سے کر دیا ہے اور امید ہے، انہیں دوبارہ یہ غلط فہمی نہیں ہو گی۔ 
______________
خبر ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجروں میں سے کل سات لاکھ واپس اپنے وطن جا چکے ہیں۔ 
اب کوئی ناہنجار تبصرہ نگار اس قسم کا دل آزار تبصرہ نہ کر دے کہ پی ٹی آئی کے سات لاکھ ووٹ کم ہو گئے۔ 
برسبیل تذکرہ، سنگجانی کی مویشی منڈی والے جلسے کے بارے میں یہ منفی تاثر بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ اس کے شرکا سبھی کے سبھی افغان مہاجروں پر مشتمل تھے۔ قطعی غلط تاثر ہے۔ اس جلسے میں قدرے معقول تعداد میں پاکستانی بھی شریک ہوئے تھے۔ 
______________
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پختونخواہ کی حکومت نے ساڑھے چارسو کے لگ بھگ ترقیاتی منصوبے ختم کر دئیے ہیں۔ ان میں تعلیم ، صحت کے شعبے خصوصی طور پر شامل ہیں۔ 
کہا گیا ہے کہ صوبے کے پاس ترقیاتی کاموں کیلئے کوئی رقم بچّی ہی نہیں۔ پھر سرکاری خزانے کی رقم آخر جا کہاں رہی ہے ؟۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ رقم تو سوشل میڈیا پر خرچ ہو رہی ہے کہ ہزاروں نوجوانوں کو یوٹیوب اور ٹویٹر پر ’’خدمات‘‘ انجام دینے کیلئے خصوصی مشاہروں پر رکھا گیا ہے اور باقی ماندہ رقم ان افسروں کو رہا کرانے کیلئے صرف ہو جاتی ہے جنہیں اغوا کرنا اغوا برائے تاوان والوں نے روزمرہ کی عادت بنا لی ہے۔ حکومت تاوان ادا نہیں کرے گی تو یہ افسر رہا کیسے ہوں گے اور رہا نہیں ہوں گے تو صوبہ کیسے چلے گا۔ 
ادھر گورنر پختونخواہ نے گنڈاپور پر ’’غیر اخلاقی حملہ‘‘ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اغوا برائے تاوان، بھتہ وصولی، دہشت گردوں کے ناکے سب ملی بھگت سے ہو رہے ہیں۔ یہ دھندہ گنڈاپور کی شراکت سے ہو رہا ہے۔ 
اس غیر اخلاقی حملے کی کوئی حیثیت نہیں۔ گورنر کنڈی کو کیا معلوم کہ حقیقی آزادی والے انقلاب کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اور جوانمردانِ انقلاب پاپڑ بیلنے کے دوران اس طرح کے غیر اخلاقی حملوں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیا کرتے۔ تاریخ انقلابات جلد اوّل مطبوعہ بنی گالہ پرنٹرز اینڈ پبلشرز اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ 
______________
آج کے اخبارات میں خبر ہے کہ نواز شریف نے سیاسی میدان میں متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 
یہ باسی STALE نیوز ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں چھ سات بار چھپ چکی ہے۔ اخبارات کے ایڈیٹرز صاحبان اپنے نیوز ایڈیٹرز کو پرانی خبر ہی بار بار چھاپنے پر انتباہی نوٹس کیوں نہیں جاری کرتے؟ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...