امیر محمد خاں
اسرائیلی بلاگ میں عمران خان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خارجہ پالیسی کے بارے میں نقطہ نظر کا حوالہ دیا گیا اور ان کے سابق سسرال گولڈ سمتھ خاندان سمیت بااثر اسرائیل نواز شخصیات کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات پر زور دیا گیا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ عمران خان کا اپنی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ اور ان کے خاندان بالخصوص ان کے بہنوئی زیک گولڈ سمتھ کے ساتھ تعلق نے اسرائیل کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نواز اور یہودی حلقوں میں ایک نمایاں شخصیت زیک گولڈ سمتھ نے اس معاملے پر عمران خان کے خیالات کو متاثر کیا۔
مصنف نے دعویٰ کیا کہ یہ خاندانی تعلق عمران خان کو ایک منفرد نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جس سے وہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے موقف پر دوبارہ غور کرنے کے لئے زیادہ کھلے ہیں۔
تاریخی طور پر، پاکستان نے فلسطین کے حق میں ایک پختہ موقف برقرار رکھا ہے، جس کی جڑیں ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر اس کی شناخت اور عالمی مسلم برادری کے ساتھ اس کی وابستگی پر مبنی ہیں۔
پاکستان کی حکومتوں نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی ہے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
عمران خان نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کھلے عام اس موقف کی حمایت کی تھی اور اسرائیل کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک اسے معمول پر لانے کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔
بلاگ کے مطابق گولڈ سمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیلی حکام کو غیر رسمی پیغامات پہنچائے گئے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ممکنہ اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بلاگ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگرچہ یہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم چیلنج بن سکتا ہے، لیکن ان کی قیادت پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی موجودہ نوعیت میں تبدیلی میں مدد دے سکتی ہے۔
بلاگ میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان سیاسی طور پر فعال رہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کسی بھی ممکنہ سفارتی پیش رفت کے لئے پاکستانی سیاست میں ان کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔
مصنف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں انہوں نے ایک عملی خارجہ پالیسی اپنائی جو اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کو نئی شکل دینے میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں نے عمران خان کی نظربندی سے رہائی کے لیے صیہونی لابیوں کی بڑھتی ہوئی کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے اور وہ ٹائمز آف اسرائیل کے بلاگ کو ان کی سیاست میں واپسی کی حمایت کرنے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ان کی قیادت میں وزیر اعظم عمران خان نے 2020ء میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے کسی بھی امکان کو واضح طور پر مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف پہلے دن سے ہی واضح ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کی ریاست کو اس وقت تک قبول نہیں کر سکتا جب تک فلسطین کے عوام کو حقوق اور ریاست نہیں مل جاتی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف سے دستبرداری کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کا معاملہ کشمیری عوام سے ملتا جلتا ہے اور ان کے (فلسطینیوں) حقوق چھین لیے گئے ہیں اور ان پر ظلم کیا گیا ہے۔
ایک اور مثال میں انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں ان کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں میرا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے جب تک کہ کوئی منصفانہ تصفیہ نہ ہو جو فلسطینیوں کو مطمئن کرے۔
اگرخان نہیں تو پاکستان نہیں ، نوٹ دکھا تو میرا موڈ بنے (وزیر اعلی پنجاب کے حوالے سے )، پختون خاں سے لشکر لائوںگا پنجاب پر چڑھائی کرونگا عمران کو رہا کراکر لیجاونگا ، صحافی سب بے ایمان اور لفافہ ہیں ، آئی ایس پی آر جھوٹ بولتی ہے ، یہ وہ مکروہ الفاظ ہیں جو علی امین گنڈہ پور نے سنجگانی میں مویشی منڈی میں پی ٹی آئی کم اور خیبر پختوں خواہ کا جلسہ زیادہ تھا جہاں وزیر گنڈہ پور نے خوب تماشہ لگایا ، یہ 9 مئی نہیں بلکہ تقریر کے متن کے حوالے سے یہ ساڑھے نو مئی تھا جہاں مفرور مراد سعید کا بیان بھی دکھایا گیا ۔ تقریر سنکر اور دیکھ کر افسوس ہوا کہ کیا ہم کسی BANANA STATE کے باسی ہیں، اس جماعت نے ٹھیکا لے لیا ہے بھارت اور اسرائیل کے اشارے پر پاکستان میں سکون نہ ہو۔ یہودی اسرائیل کے اخبارات میں خان کے حوالے سے جو مضامین شائیع ہوئے کیا وہ ہمارے ملک کے کسی کرتا دھرتا نہیں پڑھے ؟ مویشی منڈی میں کئی گئی تقریر پر تو خود پی ٹی آئی کے وکلاء گروپ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور معافیا ں مانگتے رہے ، وزیر اعلی کی تقریر سے پی ٹی آئی کے سابقہ اسپیکر کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ وہ تقریر کے دوران اسٹیج پر بیٹھے تھے جب ان سے پوچھاگیا کہ اس ’’گنڈاسا ‘‘ تقریر پر وہ کیا کہتے ہیں انکا جواب تھا میں نے تقریر نہیں سنی ۔ گنڈہ پور کی گنڈہ سا تقریر جس میں ملک کے کسی ادارے اور شخص کو نہیں بخشا گیا ، کہتے ہیں کہ قانون اپنا راستہ خود نکالتا ہے مگر ہم نے اداروںکو بدنام کرنا ، تباہی مچانا ، دہشت گردی کرنا ، ملک کو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تاریخی طور پر کشیدہ تعلقات رہے ہیں جن میں عداوت اور عداوت پائی جاتی ہے۔ تاہم، عمران خان کی قیادت نے کامیابی کے ساتھ ایک نئے راستے کا آغاز کیا ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان حرکیات کو نئی شکل دینے کا ایک بے مثال موقع پیش کیا ہے۔ اس کالم کا مقصد عمران خان کی جانب سے اٹھائے گئے ترقی پسند اقدامات پر روشنی ڈالنا ہے جو پاک اسرائیل تعلقات میں مثبت تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اقتصادی تعاون:
عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ وزیراعظم اقتصادی استحکام اور ترقی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جو باہمی فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اقتصادی تعاون کو فروغ دے کر عمران خان کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرکے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے اور معاشی خوشحالی کو فروغ دے کر پاکستانیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔
سفارتی تعلقات کی بحالی:
عمران خان نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے
قیام امن کی کوششیں:
عمران خان کا قیام امن کی کوششوں پر زور دینا پاک اسرائیل تعلقات کی بہتری کا لازمی جزو ہے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ امن ترقی کے لئے ایک شرط ہے، خان اسرائیل فلسطین تنازعہ سمیت خطے میں تنازعات کے پرامن حل کے لئے فعال طور پر وکالت کرتے رہے ہیں۔ مکالمے اور مذاکرات کے ماحول کو فروغ دے کر خان کا مقصد علاقائی استحکام اور پرامن بقائے باہمی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینا ہے۔
انسانی امداد اور تعاون:
عمران خان نے انسانی مقاصد کی حمایت اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے حقیقی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور شراکت داری کے ذریعے عمران خان پاکستان کے ترقیاتی اہداف سے فائدہ اٹھانے کے لیے زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کا تعاون دوطرفہ تعلقات سے آگے بڑھ سکتا ہے، علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے اور دونوں ممالک کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے۔
اخیر:
عمران خان کی قیادت نے پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات میں بڑی تبدیلی کے امکانات پیدا کیے ہیں۔ سفارتی روابط، اقتصادی تعاون اور قیام امن کی کوششوں کی حمایت کرکے خان کا مقصد ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جو باہمی تفہیم اور تعاون کو فروغ دے۔ یہ کالم اس بات پر زور دیتا ہے کہ عمران خان کے وژن کو اپنانے سے پاکستان اور اسرائیل دونوں کو خطے میں مشترکہ خوشحالی اور پائیدار امن کے لیے مل کر کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔