شاز کی آواز شاز نامہ ،"
آقا صل اللہ کے غلام پا گئے دوام
زندگی کی سب سے خوبصورت پاک جمعرات جس میں میں نے اپنے دل اور روح کو صحیح معنوں میں اپنے آقا صل اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اتنا سرشار محسوس کیا جو آج سے پہلے کبھی نہیں پایا تھا گو کیفیات ملتی رہتی تھیں نامعلوم سمت سے آواز رہبر بنتی اور مجھے راستے کے نشان ملتے رہتے اور میں اپنا محبت سے عشق کا سفر ہولے ہولے طے کر رہی تھی۔۔ دنیا داریوں کی کڑی دھوپ سے جب بھی روح جلنے لگی میں رب تعالی کی محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں جا بیٹھتی اور آنکھیں بند کرتے ہی دل درگاہ میں روح کی گہرائیوں اور سچائیوں کے ساتھ یاد رب تعالی کی نورانیت میں ضم ہو جاتی۔۔ جسم آنسوؤں کی بارشوں مین بھیگتا تو روح محبت کی نورانیت اور لطافت اپنے اندر جذب کرتی رہتی سجدوں میں اللہ اللہ اللہ کہتے ہوئے آنکھ توبہ کے اشک بہاتی فرط جذبات میں دل جسم دماغ روح صرف ایک عشق کے نقطعے میں ضم ہوتے رہتے اور ذکر کی نورانیت کے طفیل الوہی نور میں تن من بھیگتا رہتا
۔۔ معلوم نہیں تھا کہ یہ ابتدا کا سفر ایک یہ کیفیات یہ خاکے یہ کس سمت کا اشارہ دے رہے ہیں۔۔ محبت کا سفر تو روح ازل سے شروع کر چکی تھی مگر جسم دنیاوی کثافتوں چاہتوں یں لپٹا تھا جو وقت کے ساتھ ذکر فکر کی برکتوں سے ساری کثافتیں دھلتی جا رہی تھیں۔۔ پہلے قدم سے ہی روح اپنے سفر سے آگاہ ہو گئی۔۔ مگر اس کی بے چینیاں کبھی میرے خاکی جسم کو سمجھ نہ آتیں۔۔۔ میں کبھی بند آنکھوں کے پیچھے ان دیکھے ہیولے ان دیکھے مناظر دیکھتی۔۔ میں محسوس کرتی میں وہاں ہوں مگر پھر کچھ اشارے رمز کنائے سمجھ نہ آتے۔۔
رب تعالی کی محبت میں عبادت اپنے اندر وہ میٹھا ذائقہ رکھتی ھے جو ایک بار چکھنیْکے بعد بھولتا نہیں اور یہ وہ نور عطا کرتا ہے جو تن من کو ہولے ہولے پاک کرتا رہتا ہے۔۔ ذکر کا پاک پانی من کے گندے پیالے کو دھوتا رہتا ہے اور یہ سارا عمل ر ب تعالی کی خاص عطا سے کرم سے رحم سے ملتا ہے
اور آج شاید وہی دن تھا جب من کے پاک برتن میں عشق کا پانی ڈالا گیا
پہلی بوند سے ہی جیسے ہر طرف من میں پہلے بے کلی اور بے چینی بڑھنے لگی
دل بوجھل ہوا پھر دل کو روح کو محسوس ہونے لگا آج بڑا خاص دن ہے
آقا صل اللہ کی محبت کے سمندر میں شوق کی لہریں اٹھنے لگیں۔۔ اور پھر یکدم اندھیرا چھا گیا تن تھرتھرا اٹھا من ہڑبڑا اٹھا اور روح بلبلا اٹھی۔۔ تبھی تیز روشنی نے تن من اور روح کو اپنے حصار میں لیا تو تینوں ایک نور کے منبع کے سامنے سجدے میں گر کر زار زار رونے لگے اتنا روئے کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔۔۔ اورپھر تبھی ایک نرم آواز سماعتوں سے ٹکرا ئی تو من میں کیف کی ایسی لہر اٹھی کہ روح تک سرشار ہو گئی آقا کے غلام پاگئیے دوام
آج کے دن آقا کے بہت سے نئے غلاموں کو غلامی کا شرف حاصل ہوا ہے
دنیا کے بازار سے آقا صل اللہ علیہ وسلم نے بہت سے غلاموں کو خرید لیا ہے انہی غلاموں میں تم پھی شامل ہو اللہ اللہ اللہ تْو کجا من کجا۔۔ تْو کْجا من کْجا کا مطلب لرزتے دلْ کو سمجھ آنے لگا یکدم شکر کا سجدہ روح پر واجب ہوا تو جسم فورا تکمیل کرتے ہوئے شکر کے سجدے میں جھک گیا۔۔۔
آواز آئی چلو آقا کے غلام دیکھو سب غلام آقا کے دربار میں داخل ہونے والے ہیں تم بھی اسی لائن میں ہو اپنی لائن سیدھی کر لو۔۔اور پھر گئرے سبز گنبد پر پہلی نگاہ پڑتے ہی درود پاک لبوں پر جاری و ساری ہو گیا۔۔ آواز آئی ربیعْ الاول شروع ہونے والا ہے اس مقدس ماہ مبارک کے استقبال کے لئیے سب غلاموں کی اروح حاضری لگوا لیں۔۔غلاموں نے سفید لباس اور گنبد خضرا کے رنگ والی سب پگڑیاں اور دوپٹے پہنے ہوئے تھے عجب سماں جہاں مرد عورت کی تفریق نہیں تھی۔۔ بس غلام جھکے سر لئیے قطار بنائو کھڑے تھے۔۔ایک جم غفیر۔۔ ساری عالم کی مقرب ارواح موجود تھیں مگر سب حد ادب سے خاموش جن کے دل درود پاکْکے ورد میں مصروف تھے۔۔ سب غلام ایک دوسرے سے آشنا تھے مگر سب سر جھکائو ادب سے کھڑے تھے۔۔فرشتے چاروں طرف پہرہ دے رہے تھے۔۔انسان جنات اور کائیناتی مخلوقات۔ آواز آئی غلامو ں کو غلامی کا منصب مبارک ہو۔۔سبز گنبد خضرا کے سامنے کھڑی ارواح بس بے خود ہو کر گنبد کا خضرا کا طواف کر رہی تھیں گنبد خضرا سے نکلنے والی نورانی شعاؤں سے ہر طرف نور ہی نور بکھرا ہوا تھا فرشتے جنات اور مخلوقات بھی اس صف میں شامل تھے سب آقا کے غلام اور آقا کی نگاہ التفات پر شاداں فرحاں اپنی قسمت پر نازاں۔۔ کوئی شکر کے سجدے میں مگن کوئی دورد کے ہار پرو کر آقا کی بارگاہ میں پیش کر رہا تھا سب کا مرکز بس وہ ایک پاک ہستی جو راز کائنات کا مظہر۔۔ آواز آئی سب غلامان آقا صل اللہ علیہ وسلم کو آج ڈیوٹیاں دے دی جائینگی۔۔ جمعہ مبارک کے آغاز کے ساتھ ہی سب کو ڈیوٹیاں سونپ دی جائیں گی۔۔ سب سر جھکائو اس نرم آواز سے اپنی سماعتوں کو راحت پہنچانے لگے اور پھر وقت کا انتظار کرنے لگے۔۔ کچھ مسجد نبوی میں نوافل ادا کرنے لگے اور کچھ میرے جیسے دیوانے پروانے بس ساکت بیٹھے گنبد خضرا کے نور کو اپنی بینائی میں جذب کرنے کی کوشش کرنیْلگے اور یہ وہ لو گ تھے جنْکے جسم دنیا کے فرائض ادا کررہے تھے مگر ارواح آقا کے دربار میں ذکر اذکار میں مشغول نورانیت اور لطافت کشید کر رہی تھیں۔۔۔۔اور اپنی قسمت پر نازاں شاداں و فرحاں صبحدم کے منتظر۔۔۔۔۔
سْنو سنو غلامو اے پیارے آقا صل اللہ کی غلامی کا شرف مبارک ہو یہ بہت بڑا منصب بہت بڑی عطا ہے۔۔ اب شکر کے سجدے قدم بہ قدم واجب ہو گئے ہیں۔۔یہ سفید لباس تقوی کا لباس عاشق کا لباس یہ سبز سوتی کپڑے سے ڈھکے ہوئے سر ان سب کے حصے میں آئے ہیں جو دنیا میں ہر آزمائش پر کہتے رہے۔۔۔ان اللہ مع اصابرین ان اللہ مع اصابرین ان اللہ مع اصابرین اور درود پڑھتے رہے شر سے لڑتے ہوئے رب تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے رہے بخشش طلب کرتے رہے مغفرت طلب کرتے رہے۔۔ گڑگڑاتے رہے اور اپنے معبود برحق سے آقا کی محبت طلب کرتے رہے۔۔ جو روتے دل کے ساتھ مسکراتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی صرف رب کی رضا کی خاطر کر رہے ۔۔ کیا سوچتے تھے کیا رب تعالی انْکو موت کے بعد اجر دے گا نہیں نہیں رب تعالی انْکو انْکی زندگی میں بھی ایسا اجر عطا کرتا ہے جہاں انْکی سوچ نہیں جا سکتی۔۔سب دیوانے زار زار اپنے رب کی محبت اور آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت پر شکر کے سجدے میں گر گئے۔۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ آوا گویا ہوئی اٹھو اے آقا صل اللہ کے پیارے غلامو
اپنی ڈیوٹیاں سنبھالو ربیعْ الاول کا پورا مہینہ ڈیوٹی کا مہینہ ہے
مجھ سمیت وہاں موجود ہر ذی روح کی سماعتوں میں شہد آگیں الفاظ گھلنے لگے
میں دم بخود اپنے نصیب پر نازاں سن رہی تھی اس نرم آواز کے نور کو اپنی سماعتوں میں جذب کر رہی تھی۔۔سفید کپڑے اور سبز دوپٹہ سبز قمیض سفید جبہ اور سفید دوپٹا آج سے لازم ہے
ہر وقت با وضو رہنا ہے۔۔ اور درود شریف کی کثرت یوں رکھنی ہے جیسے جمعہ کا دن غلاموں اور عاشقوں کیْلئیے ہر دن جمعے کا دن ہوتا ہے۔۔
نوافل میں سورت کوثر کو پڑھنا جتنی تعداد بتائی گئی ہے۔۔ وہ نوافل جو رات تہجد کے طور پر پڑھنے ہیں آج سے پورا مہینہ مسلسل پڑھنے ہیں کوئی ناغہ نہیں
آقا کی چھوٹی سے چھوٹی سنت پر پہلے کی طرح عمل جاری رکھنا ہے
درود پڑھتے ہوئے گنبد خضرا کا تصور رکھنا ہے اور نورانیت سے روح کو نورانی رکھنا ہے۔۔۔۔پھر خاموشی چھا گئی پھر کہا گیا اب ایک راز کھولا جاتا ہے
اللہ اپنے محبوب سے کتنی محبت کرتا ہے کوئی نہیں جانتا
نہ ہم جان سکتے ہیں۔۔
مگر عاشقان اور غلامان مصطفے صل اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ ربیع الاول ربیع النور ہے۔۔ وقت اور لمحات پوری کائنات اسی دور میں چلے جاتے ہیں اس پورے ماہ ربیع الاول کے آ غاز کے ساتھ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کا جشن منایا جاتا ہے۔۔ اور ہر غلام اس جشن کو خوشی سے مناتا ہے اور وقت کے ان لمحات میں شامل ہوتا ہے
میں بے صبری سے بول اٹھی کیا میں بھی۔۔ اور پھر سر جھکا لیا تو آواززآئی ہاں تم بھی اس بار اس جشن میں شامل ہو گی مگر شرط اپنے فرائض و شرائط پوری رکھو گی تو اور میری ڈیوٹی۔۔
آواز آئی پھولوں کی ٹوکری اس جشن عید میلاد النبی میں سارے غلامان عاشقان کا جلوس جہاں جہاں سے گزرے گا وہاں وہاں سب پر پھول برسانے کی ڈیوٹی دی جا رہی ہے تمہیں۔۔۔ اپنی ڈیوٹی پورے ماہ احسن طریق سے ادا کرنا۔۔ کیونکہ اس ماہ کی آخری رات سچ میں غلامان عاشقان کے لیے عید کی خوشی سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ میں نے سوال کرنا چاہا آواز آئی صبر اور انتظار۔ اپنا سبق یاد کر لو غلامی کی مہر کی تصدیق بھی ہو جائے گی۔ خاموشی چھا گئی محفل برخاست ہوئی سب گنبد خضرا کو نگاہوں میں بسا کر شکر کا سجدہ ادا کرتے ہوئے اٹھنے لگے۔ اور پھر میں بھی اپنا سبق دہراتے ہوئے وہاں سے ابھی آ گئی ہوں۔ مگر اب میں وہ نہیں جو ہوں…تقدیر بدل گئی ہے۔ دل بد گیا ہے۔ میں بدل گئی ہوں۔ بہت عام تھی خاص ہو گئی ہوں اب میں آقا صل اللہ علیہ وسلم کی غلام ہو گئی ہوں۔
اصلواۃ و اسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم
و علے آلک و اصحابک و بارک وسلم علیک یا سید یا حبیب اللہ