اسلام آباد آہائیکورٹ کے سابق وزیراعظم عمران خان کے ملٹری ٹرائل ہونے نہ ہونے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ممکنہ ملٹری حراست اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت ہورہی ہے جہاں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب یہ پٹیشن سن رہے ہیں، دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کوئی کیس نہیں لیکن آگے ہو سکتا ہے؟‘، جس پر وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ ’ہمیں خدشہ ہے‘، عدالت نے کہا کہ ’یہ سیاست ہے‘، اس پر وکیل بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے‘، اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے قرار دیا کہ ’وہ بھی سیاست ہے‘۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ’اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی طرف سے بیانات دیے گئے ہیں‘، اس موقع پر عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عظمت بشیر تارڑ کو روسٹرم پر طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ ’اٹارنی جنرل آفس سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جائے کیوں کہ وزراء کی طرف سے ملٹری ٹرائل کی دھمکی دی گئی، عمران خان ایک سویلین ہیں اور کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل عدالت کیلئے فکر کی بات ہے‘۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ ’حکومت سے پتا کرکے بتائیں کیا عمران خان کے ملٹری ٹرائل کا معاملہ زیرغور ہے؟ اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو درخواست غیرمؤثر ہو جائے گی لیکن اگر ایسا کچھ زیرغور ہے تو پھر ہم اس کیس کو سن کر فیصلہ کریں گے‘، ان ریمارکس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست پر عائد اعتراضات دور کر دیئے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے رجسٹرار آفس کو درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کردی اور 16 ستمبر تک وفاقی حکومت سے وضاحت طلب کرلی۔ بتایا جارہا ہے کہ عمران خان کی ممکنہ ملٹری حراست اور ٹرائل روکنے کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’9 اور 10 مئی کے مقدمات کے لیے فوجی تحویل میں دینے کی خبریں زیر گردش ہیں، بانی پی ٹی آئی کو سویلین کورٹس کے دائرہ اختیار میں رکھنے اور فوجی تحویل میں دینے سے روکنے کے احکامات دیئے جائیں‘، درخواست میں وفاق کو بذریعہ وزارت قانون، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع جبکہ آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب پولیس، آئی جی جیل خانہ جات پنجاب، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا۔ ابتدائی طور پر رجسٹرار آفس کی جانب سے درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے کہ کسی مخصوص ایف آئی آر کا حوالہ دیے بغیر عمومی ریلیف کیسے مانگا جا سکتا ہے؟ درخواست کے ساتھ کوئی آرڈر یا دستاویز نہیں لگائی گئی، پنجاب کے مقدمات پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست کیسے دائر ہوسکتی ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہوتے ہوئے ہائیکورٹ میں درخواست کیسے دائر ہوسکتی ہے؟، تاہم بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی ممکنہ ملٹری حراست اور ٹرائل روکنے کی درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کردی۔