میرے والد نے 73ءکے آئین کو اسلامی رنگ دیا، کوئی ختم نہیں کر سکتا: اعجازالحق
جنرل ضیاءالحق نے سرکاری افسران سے جو بے وضو نمازیں پڑھوائی ہیں۔ ایسا تو اسلامی رنگ نہیں چاہئے تھا۔ اسلامی رنگ ڈنڈے سے نہیں چڑھتا بلکہ یہ تو اخلاق سے اپنا کام دکھاتا ہے۔ ڈنڈے سے تو ضیاءالحق اپنے صاحبزادے اعجازالحق کو باریش نمازی نہیں بنا پائے 18 کروڑ عوام کو کیسے بناتے۔ گذشتہ روز اعجازالحق نے تانگہ پارٹی کی سواریاں تلاش کرنے کے لئے اشتہار بھی دیا تھا لیکن سواریاں نہ ملنے کے باعث وہ آج بہت افسردہ ہیں۔ جناب کی سیاسی صلاحیتوں پر تو یہ جملہ پورا اترتا ہے.... ”نتھو کے گھر اقبال اور اقبال کے گھر پھر نتھو پیدا ہوا ہے“ جن سیاسی رہنماﺅں نے ضیاءالحق کے دور میں جنم لیا اور ضیاءصاحب کی خوشامد میں وہ یوں کہا کرتے تھے ”میری عمر بھی آپ کو لگ جائے“۔ آج وہ لوگ بھی اعجازالحق کو گھاس نہیں ڈال رہے۔ کل تک جو لوگ موصوف کی پرچی لینے اور ان سے سلام کرنے کیلئے گھنٹوں دروازے کے باہر انتظار کرتے رہتے تھے۔ اب اعجازالحق کو ان سے ملنے کیلئے گھنٹوں راہداری میں بیٹھنا پڑتا ہے ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ اعجازالحق کا حال دیکھ کر ان تمام لوگوں کو ایک ایک پرچی بنا کر اپنی جیب میں ڈال لینی چاہئے جن کی پرچی آج چلتی ہے کیونکہ مشکل وقت میں پرچی ان کے کام بھی آ سکتی ہے۔ آج اگر اعجازالحق کی جیب میں کوئی پرانی پرچی ہوتی تو یقیناً انہیں پریشانی نہ ہوتی اور ایک ٹکٹ نہیں بلکہ کئی ٹکٹیں انکے پاس ہوتیں۔
٭....٭....٭....٭
”آزاد عدلیہ کو سلام الیکشن لڑوں گا“ جمشید دستی جیل سے رہا حامیوں کے بھنگڑے۔ عدلیہ نے چند روز قبل جب الیکشن کیلئے نااہل قرار دیکر دستی کو جیل بھیجا۔ تو آنسو کی رم جھم میں وہ عدلیہ پر ایسے برسے جیسے ساون کے بادل برستے ہیں۔ لیکن دو دن جیل کی دال کھانے کے بعد وہ اسی عدلیہ کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ دستی صاحب ایسے تو مداری بھی بندر کو مار مار کر سدھار لیتا ہے۔ وہ نہ صرف مداری کے اشارے پر ناچنا شروع ہو جاتا ہے بلکہ عوام الناس کو بھی سلام پیش کرتا ہے۔ دستی میدان میں کود چکے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکارا ہے۔ اب مظفر گڑھ کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جاگیرداروں کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘ یا ہاریوں کیساتھ‘ جمشید دستی زیرو سے ہیرو بننے پر بڑے خوش نظر آرہے تھے۔ این اے حلقہ 177 اور این اے 178 کے عوام کیلئے اب انکا ایک ہی نعرہ ہو گا....
درد دور ہو جائیں گے پیارے!
ترقی پا¶ں چومے گی تمہارے!
ہر اک ووٹر کے ہوں گے وارے نیارے
جو بل ہیں نوٹ بن جائیںگے سارے
دستی صاحب صرف وہ وعدے کیجئے جنہیں آپ پورا کر سکیں۔ آپ ووٹ لینے کیلئے چاند تارے توڑنے اور دودھ کی نہریں بہانے کے وعدے مت کرنا۔ کیونکہ پانچ سالوں میں آپکی سابقہ جماعت بھی دودھ کی نہریں نہیں بہا سکی بلکہ الٹا مہنگائی کے دریا چلا گئے ہیں‘ اس لئے عوام سے جھوٹے وعدے مت کیا کریں کہ یہ ساکھ کو تباہ کر دیتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
مسلم لیگ (ن) سیکرٹریٹ لیڈروں کے ٹکٹ کے لئے کارکن مرغا بن گئے
(ن) لیگ نے سیکرٹریٹ کے سامنے سے احتجاجی کھمبا اکھاڑ پھینکا‘ تو کارکن مرغا بن کر احتجاج کرنے پر آگئے۔ کارکنوں نے اپنے محسنوں کو ٹکٹ تو دلوانے ہیں۔ چاہے میاں نواز شریف کو راضی کرنے کیلئے بابا بلھے شاہ کی اس بات پر ہی کیوں نہ عمل کرنا پڑے ذرا تصرف سے عرض ہے....
”مرغا“ بنیا مری عزت نہیں گھٹ دی
میکوں اِنج ای یار مناون دے
کارکن مرغا بن کر اب قیادت کو منا رہے ہیں۔ صبح صبح جب اخبار پر مرغے کی تصویر نظر آئی۔ تو بے ساختہ شعبہ تعلیم کی طرف دماغ چلا گیا۔ کیونکہ ٹاٹ سکولوں میں اسی طرح مرغ بنائے جاتے ہیں۔ لیکن خبر پڑھ کر علم ہوا کہ یہ تو ایک سیاسی کارکن مرغا بنے ہوئے ہے آج کل احتجاج کے نئے نئے طریقے نکل آئے ہیں۔ کوئی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرکے احتجاج کرتا ہے۔ تو کوئی کھمبے پر چڑھ کر برقی تاروں پہ بیٹھ جاتا ہے۔ اب اگر مال روڈ پر اپنے مطالبات کیلئے کلرک بادشاہوں نے مرغا بن کر احتجاج شروع کر دیا۔ تو یوں لگے گا جیسے یورپ میں بطخیں قطار اندر قطار چل رہی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
کم از کم تنخواہ تولہ سونے کے برابر‘ ملک کو اسلامی ریاست بنائینگے‘ جے یو آئی (ف)
جناب ایک کلو حلوے کے برابر تنخواہ کا اعلان کردیتے تو آپکے ہم پیالہ بھی خوش ہوجاتے اور آپ اپنے مجوزہ اقتدار میں اپنا یہ وعدہ نبھا بھی لیتے۔یہ تولہ سونے کا اعلان کہیں جمعیت علماءاسلام کی بنیاد جب رکھی گئی تھی اس وقت کی قیمت کے برابر تو نہیں۔ تب تو دو چار سو روپے کا ملتا ہو گا۔ مولانا عبدالغفور حیدری جتنے خود بڑے شکم والے ہیں۔ انہوں نے اس قدر بڑا ہی شوشہ چھوڑا ہے۔ یہ اعلان کسی دیوانے کی بڑ لگتا ہے۔ اس اعلان سے لگتا ہے کہ جے یو آئی اب زیادہ نشستیں لینے سے مایوس ہو چکی ہے مولانا کو اعلان کرنا چاہئے تھا کہ اگر اقتدار مل گیا تو باصلاحیت افراد کو حافظ حسین احمد کی طرح دیوار کیساتھ لگا کر رکھیں گے تاکہ کوئی باصلاحیت میدان میں آکر آگے نہ بڑھ سکے۔ ڈیزل فری کر دینگے کیونکہ ہمارے پاس بہت موجود ہے۔ بیرونی امداد صرف وفاداروں کو ملے گی کیونکہ اس وقت وہ زکوٰة لینا چھوڑ دینگے۔ حلوے کا سارا سامان مفت ملا کرے گا کیونکہ وہ پسندیدہ خوراک ہے جمعیت کا ماٹو بھی اب تو تبدیل ہو گیا ہے۔ انہیں انتخابی نشان بھی حلوے کی کڑاہی ہی رکھ لینا چاہیے تھا۔ نئے ماٹو کیمطابق باصلاحیت افراد کیخلاف لابی بنا کر اسے تنہا کرنا اور اسکی صلاحیتوں کو کند چھری سے کاٹنا شامل ہے۔ اور اسکے علاوہ صرف غلامی کرنے والوں کو رکنیت دی جائیگی۔ جو آگے بڑھنے کی کوشش کریگا۔ اسکے پَر بھی کاٹ دئیے جائیں۔پھر فوجی آمریت اور جمعیت کی آمریت میں کوئی فرق نہیں جمعیت کی جمہوریت بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مترادف ہے۔