چیف جسٹس افتخا ر محمد چودھری اور دیگر معزول عدلیہ کی بحالی کے بعد سے پاکستان کے سیاسی حالات کچھ اتنی تیزی سے بدلے کہ عام انسان کو یقین ہو چلا تھاکہ اب پاکستان کی قسمت بدلنے والی ہے۔عدلیہ نے بڑے بڑے فیصلے کئے۔ این آر او کیس اور ساتھ ہی سوئس کیسوں کو جب ترجیحاً ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا تو ہر طرف یہی سوچ ابھری اور یقین ہونے لگا ، حکمرانوں نے مختصر عرصہ میں کرپشن کی جن حدو ں کو چھوا او ر عوام کا ناطقہ بند کیا اس کا حساب لیا جائیگا۔ اب پاکستان سے لوٹی جانیوالی رقم واپس آ جائیگی ، لوٹ مار کرنیوالے اپنے انجام کو پہنچیں گے اور این آراو سے استفادہ کرنیوالے اسی مقام پر ہونگے یہاں سے اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں اور بڑی بڑی پوسٹوں پر بٹھا دئیے گئے تھے مگر اڑھائی تین سال تک ان کیسوں کو بے شمار دفعہ کلائمکس تک پہنچایا گیا اور ایسا ہیجان برپا کیا گیا کہ ملکی میڈیا اور بیس کروڑ عوام الصبح ٹی وی کے سامنے یہ امید لیکر بیٹھ جاتے کہ کرپٹ حکومت ابھی گئی کہ ابھی گئی ،عوام کو مصائب کی سولی پر چڑھانے والے آج ہی ہتھکڑیوں میں جکڑے جائینگے مگر عدالتوں کا وقت ختم ہونے کیساتھ انکی امیدیں خاک نشیں ہو جاتیں۔ سماعت کی نئی تاریخ پڑ جاتی تھی اور درمیان میں جسٹس افتخار کے بیٹے کا مشہور زمانہ ارسلان افتخار کیس بھی سامنے لایا گیا تاکہ اس چلتے ہوئے ڈرامہ سیریل میں کلائمکس کو مزید بلندیوں تک پہنچایا جائے۔میں نے اس وقت بھی اپنے ایک کالم میں خبردار کیا تھا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو مشورہ بھی دیا تھا (جس پر مجھے پارٹی کی طرف سے کافی حد تک کھڈے لائن لگا دیا گیا ،جی حضوریوں میں گِھرے اور کرپشن کی دلدل میں دھنسے پارٹی سربراہ کو ایک اصول پرست کا مشورہ کیسے پسند آسکتا تھا؟)کہ سوئس حکام کو خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ زرداری صاحب کے اکاﺅنٹ میں موجود اربوں روپیہ ان کے صدر بنتے اور استثنیٰ ملتے ہی سوئٹرزلینڈ کے بینک اکاﺅنٹوں سے نکلوا کر کسی اور محفوظ مقام پر پہنچا دیئے گئے تھے۔ قارئین کو وہ ٹی وی فوٹیج یاد ہوگی جس میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن اس کیس سے متعلقہ تمام ڈاکومنٹ ،کاغذات سوئٹزرلینڈ سے برطانیہ منتقل کرنے جینوا آئے تھے اور وہ سب کچھ ٹرکوں میں لاد کر اپنے ساتھ لے گئے۔میں چونکہ محترمہ شہید کی ہدایت اور حکم پر اس کیس کا سوئٹزر لینڈ میں انچارج تھا لہٰذا مجھے سوئس حکومت اس کیس سے متعلق لمحہ لمحہ آگاہ کرتی رہی۔ہماری اس خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کو ہر محاذ پر ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس کے منفی اثرات اس حد تک برآمد ہوئے کہ تمام بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو بھی تیار نہ ہوئے کیونکہ ٹی وی پر ”چلنے والی ڈرامہ سیریل“ نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ حکومت آج گئی یا کل اور جانے والی حکومتوں سے کوئی کاروباری معاملات طے نہیں کرتا۔اس طرح پچھلے تین سالوں میں پاکستان کو مجموعی طور پر غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں 4ہزار ارب کا نقصان پہنچایا گیا اور اسی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا پاکستان کو اندرونی طور پر بھی اتنا غیر مستحکم کر دیا گیا کہ پاکستان کے چھوٹے بڑے سرمایہ کار ملک چھوڑ کر اپنا سرمایہ اور کاروبار بنگلہ دیش، ملائیشیا، دبئی ،سنگاپور حتیٰ کہ کچھ کاروباری خاندان ساﺅتھ امریکہ کے ”قریبک “کنٹری میں شفٹ ہو گئے جس سے صرف چار سالوں میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 62سے 100روپے ہو گئی ۔ ملک میں بے روزگاری اس حد تک بڑھ گئی کہ خودکشیوں کی شرح 100فیصد بڑھ گئی یعنی دگنا ہو گئی۔جس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوا اور اس دوران نام نہاد حکومت نے عدلیہ کے باہمی تعاون سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔
اب جب حکومت کے جانے کے دن آئے تو ارادی طور پر ایک سازش کے تحت اسمبلیاں نئے الیکشن سے صرف دو ماہ پہلے رات کو 12بجے تحلیل کی گئیں اور 11مئی کو الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔ پھر احتساب ،سکروٹنی اور آئین کی شق 62،63 کو بہانہ بنا کر اسی ڈرامہ سیریل میں سے ایک نئی قسط کا اجراءشروع کیا گیا اور شروع شروع میں عوام کو ایسا لگا کہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ مل کر پاکستان کو ان چوروں، لٹیروں، ڈاکوﺅں، قاتلوں اور راہزنوں سے نجات دلا دیں گے مگر چشم فلک نے دیکھا کہ ان سب امیدواروں کو آہستہ آہستہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے جن کو صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نااہل کیا گیا تھا۔لگتا ہے کہ ان اداروں کی آنکھیںایک ہی معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھتی ہیں۔
اس سارے ڈرامے کا بغور جائزہ لینے کے لئے کسی پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عام فہم انسان کی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ ،حکومت اورمیڈیا کے ایک مخصوص گروپ کی چلائی ہوئی سٹوری پر مبنی کھیل ہے۔اب ان قوتوں کا ہدف ہے کہ پھر وہی لوگ واپس لائے جائیں اور الیکشن کمپین کیلئے اتنا وقت بھی نہ دیا جائے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے اوپر انکی کرتوت اچھال کر ایک دوسرے کو آئینہ ہی دکھا سکیں۔ میرے ایک انٹی نارکوٹکس فورس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنیوالے دوست نے بتایا کہ سمگلروں کا ایک یہ بھی وطیرہ کہ جب انہوں نے منشیات سے بھرے ہوئے ٹرک گزارنے ہوتے ہیں تو وہ انٹی نارکوٹکس فورس کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کیلئے اپنے ہی کسی بندے کوچند کلو منشیات دے کر کسی اور راستے سے بھیج کرانٹی نارکوٹکس والوں کو خود ہی مخبری کر دیتے ہیں۔اس طرح دو چار کلو کی قربانی دے کر دو چار ٹرک آسانی سے گزر جاتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگوں کے کاغذات مسترد کرنے کا ڈرامہ کرکے دراصل بڑے مگرمچھوں کو تحفظ دینا مقصود تھا۔اور ایک عام آدمی کی توجہ اصل مسائل اور پانچ سال کی لوٹ مار سے پردہ پوشی مقصود تھی۔18اپریل تک اپیلوں کے فیصلے ہوں گے ۔اسکے بعد انتخابی مہم کے لئے 22دن بچیں گے ۔ اس مختصر عرصہ میںامیدوار کیا خاک مہم چلائے گا۔ بظاہر ان کی یہ چال کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔الیکشن کیلئے 19اپریل سے لے کر 11مئی تک 22 دن بنتے ہیں جس میں سے الیکشن کمپین تین دن پہلے ختم کر دی جائیگی اور امیدواروں کے پاس صرف 16،17دن انتخابی مہم کیلئے ہونگے جو کہ ایک امیدوار کیلئے الیکشن کمپین کیلئے ناکافی ہیں اور امیدوار بمشکل اپنی الیکشن ٹرانسپورٹ کا انتظام اور تشہیری مہم بھی نہیں چلا سکیں گے۔ اس طرح اس سارے ڈرامہ سیریل کے پروڈیوسر اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر وہی صادق اور امین صوبائی و قومی پارلیمنٹ تشکیل پا جائے گی۔ عہدوں میں تھو ڑے بہت ردوبدل کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں سو فیصد وہی چہرے ہونگے جن کے باعث ملک وقوم مسائل کے بھنور میں پانچ سال پھنسے رہے ۔اللہ کرے کہ یہ میرا وہم اور وسوسہ ہی ہو مگر حالات اور شواہد اس کی تائید نہیں کرتے۔