-26 مسلمانوں کو اپنے فقہی، فکری اور کلامی دبستان، ہندوﺅں کو کبھی ان ناموں کی شاید ہوا بھی نہ لگی ہو۔
-27 مسلمانوں کے اپنے روحانی سلسلے (Spiritual Chains)، ہندوﺅں کے اپنے گیان دھیان کے طریقے کار۔ -28 مسلمانوں کے بزرگوں کے مستند اور اجماعی طور پر ثابت شدہ کشف و کرامات، ہندوﺅں کے اپنے استدراج۔-29 مسلمانوں کا اپنا تفسیری، حدیثی، فقہی اور کلامی ذخیرہ، ہندو اسکی اصطلاحات سے بھی ناآشنا۔-30 مسلمانوں کی اپنی شاعری حمد، نعت ، منقبت، سلام اور شعرائ، ہندوﺅں کا اپنا شاعرانہ ادب۔
-31 مسلمانوں کی اپنی تاریخ ،ہندوﺅں کی اپنی تاریخ۔ -32 مسلمان جادو کو کفر سمجھتے ہیں، ہندوﺅں میں جادوگری شخصی کمال و عزت کا سبب۔-33 مسلمان ذکر و اذکار کے قائل، ہندو جنتر منتر اور سفلی علوم کے قائل۔
-34 مسلمان نماز پنجگانہ کے لئے اذان دیتے ہیں وہاں روزانہ کی عبادت کےلئے گھنٹیاں ۔-35 مسلمانوں کے غدار اور دشمن ہندوﺅں کے یار اور دوست۔-36 مسلمانوں کا تصور انسان، تصور زندگی، تصور کائنات ہندوﺅں سے بالکل مختلف۔ برصغیر پر مسلمانوں کی وسعت ظرفی، برداشت اور رواداری کے ساتھ ایک ہزار سالہ حکمرانی کے مقابلے میں ہندوﺅں کی انگریزوں کے ساتھ چند سالہ نیم مشترکہ حکمرانی کے بگڑتے تیور اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو مسلمانوں پر اپنا شکنجہ سخت سے سخت تر کرتے چلے جائیں گے چنانچہ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کے ایما پر قائداعظم محمد علی جناحؒ سمیت دوسرے مسلم قائدین نے آنے والی مسلمان نسلوں کے ایما ن و عقیدہ کے تحفظ اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بقا و تسلسل کے لئے سوچا کہ مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا وطن ہونا چاہئے جہاں نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور تہذیب و پرورش اسلامی ماحول اور قرآن و سنت کی روشنی میں ہو۔ جہاں ریاست مسلمانوں کے دین و ایمان کی محافظ ہو اور معیشت، معاشرت، تجارت، سیاست، تعلیم ، قانون، آئین غرض زندگی کے جملہ پہلو مسلمانوں کے مذہبی، روحانی اور اقتداری احیاءکے ضامن بن سکیں۔ اسی لئے مسلمانوں کی سلامیت کے اظہار کے لئے حاصل شدہ وطن کا نام پاکستان رکھا گیا جو اسم بامسمیٰ ہے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد زمین پر رب تعالیٰ کی حاکمیت، شریعت اسلامی کی اور نبوت محمد کی کاملیت ، جامعیت، آفاقیت اور عالمگیریت کے دعویٰ کے اثبات کےلئے تجربہ گاہ بنانا تھا۔ جہاں قانون خداوندی نے جملہ انسانی امور و معاملات کو طے کرنا تھا۔ اسی لئے تحریک آزادی پاکستان کے کسی بھی جلسہ، جلوس، ریلی، مظاہرہ اور خطاب کے دوران عام کارکن سے لے کر کسی بڑے لیڈر اور اصاغر سے لے کر اکابر تک کوئی بھی مثال اس بات کی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کسی فرد واحد نے عمومی طور پر جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نعرہ لگایا ہو کہ:
پاکستان کا مطلب کیا؟ ا، ب، ت، ‘ پاکستان کا مطلب کیا؟A`B`C`D ‘ پاکستان کا مطلب کیا؟‘پڑھنے لکھنے کے سوا کیا‘ پاکستان کا مطلب کیا؟‘ سیکولر ازم کی بات ہے کیا‘ پاکستان کا مطلب کیا؟واہ جمہوریت واہ‘ پاکستان کا مطلب کیا؟لبرل ازم اور روشن خالی آ‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ سرمایہ داریت ہماری چاہ‘ بلکہ ہر زبان پر جو نعرہ تھا وہ تھا‘ پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
اسی طرح پاکستان کے قیام کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کو زمین پر قائم کرنے کے مترادف سمجھ کر جن مسلمان حضرات و خواتین نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کیا، ان شہدا کے وارثین، عزیز و اقارب، بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کی سیاسی قیادت میں سے کسی ایک فرد نے بھی ان شہدائے اسلام پاکستان کو شہداءا، ب، ت، ث‘ شہدائA`B`C`D ‘ شہداءجمہوریت‘ شہدائ لبرل ازم‘ شہداءسرمایہ داریت‘ شہدائ سیکولرزم‘ شہدائروشن خالی وغیر ہ نہیں دیا اگر اس نوعیت کی کوئی انکشافی معلومات کسی کسی دانشور کے پٹارے میں ہو تو بھی کسی انتظار و توقف کے پوری پاکستانی قوم کو آگاہ فرمائیں۔آج سوال پاکستان کے ہونے اور نہ ہونے کا اور اس کے چاہے جانے یا نہ چاہے جانے کا سرے سے ہے ہی نہیں پاکستان کو جس جس نے چاہا جان، مال عزت، شہرت ، وقت، صلاحیت اور قابلیت کی قربانی دے کر انہوں نے اپنی چاہت کو حقیقت میں بدلا۔ پاکستان اب چاہت کا معاملہ نہیں حقیقت بلکہ بدیہی حقیقت ہے۔ جس طرح دنیا کے نقشے پر چین، روس، امریکہ، برطانیہ وغیرہ تسلیم شدہ حقائق ہیں ان سے بھی زیادہ مسلمہ حقیقت پاکستان ہے جو کسی کے آنکھیں بند کرنے سے چھپ اور ختم نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو جتنی اندرونی و بیرونی سازشیں اس کے خلاف کی گئیں یہ ملک اب تک دنیا کے نقشے سے مٹ چکا ہوتا۔ اس ملک کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ اسکے اداروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا، اسکے عوام کو 65 سال سے بے وقوف بنا کر لاچار اورو بھکاری بنانے کی سازشیں آج بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ اسکے ایک بازو کو اس سے زبردستی کاٹ دیا گیا، ہر وہ منصوبہ جس سے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی ہو سکتی تھی اس کو ذمہ دار افراد نے رکوا کر اپنی بدباطنی کا اور اس ملک کے ساتھ دشمنی کا ثبوت دیا۔ (جاری)