آج بیماریاں اس قدر انسانی صحت پر یلغار کر رہی ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب سہولتیں ناکافی ہو چکی ہیں۔ ایمرجنسی میں کسی بھی سرکاری ہسپتال میں بیڈ ہی نہیں ملتے۔ گزشتہ مہینے میرا ایک عزیز نوجوان (محمد سلیمان) کے گردے سُکڑ گئے وہ بیچارہ بیماری کے ہاتھوں اس قدر لاغر ہو گیا کہ وہ کسی کام کاج کا بھی نہیں رہا جس سے پورا خاندان معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا۔ لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونے کیلئے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہُوا کہ کہیں بھی گردہ وارڈ میں بیڈ خالی نہیں ہے اور نہ ہی ڈائلیسز کی سہولت میسر ہے۔ مجبوراً اسے پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ گھر واپسی کے بعد رات کو پھر تکلیف ہوئی تو پھر کسی سرکاری ہسپتال نے اسے داخل کرنا گوارا نہ کیا، شدید تکلیف کو دیکھتے ہوئے اسے ایک بار پھر پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ ایک جانب سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں دوسری جانب، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ٗ جعلی ادویات اور بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے دل ٗ یرقان ٗ کینسر اور گردے کے امراض اس قدر پھیلتے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں طبی ایمرجنسی لگانا پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کھربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری ہسپتالوںمیں نہ تو سپشلسٹ ڈاکٹر میسر ہیں جبکہ لیبارٹریاں بھی صبح نو بجے کھل کر ایک بجے بند ہو جاتی ہیں جبکہ ٹیسٹوں کی وصولی کا وقت بارہ بجے ہے۔ ان مشکل اور بدترین حالات میں حجاز ہسپتال میں علاج و معالجے کی دستیاب سہولتوں کو دیکھ کرواقعی خوشی ہوتی ہے۔ ایک خدا ترس انسان حاجی انعام الٰہی نے گلبرگ تھرڈ لاہور سر سید روڈ پر 1968ء میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کی بنیاد رکھی تھی آج یہ ڈسپنسری پورے علاقے کی معیاری اور سستی علاج گاہ کا روپ دھار چکی ہے۔ یہاں کینسر ٗ یرقان ٗ گائنی ٗ بچوں ٗ سکین ٗ فزیشن ٗ ہڈیوں اور دانتوں کے الگ الگ شعبہ جات قائم ہیں۔ ہسپتال میں سپیشلسٹ کو دکھانے کی فیس صرف 150 روپے ہے جبکہ ایمرجنسی میں داخل ہونے کیلئے پچاس روپے کی پرچی بنوانی پڑتی ہے۔ لوگوں کا اعتمادا س قدر بڑھ چکا ہے کہ صبح سے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔ مریضوںکی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ نے ڈبل شفٹ بھی شروع کر دی ہے۔ ایک شفٹ صبح 9 بجے سے 2 بجے تک تو دوسری شفٹ دوپہر 2 بجے سے رات 8 بجے تک چلتی ہے اس دوران نہ صرف مخصوص شعبوں کے ماہر ڈاکٹر اپنی اپنی علاج گاہ میں موجود رہتے ہیں بلکہ دوسری شفٹ میں آپریشن بھی کئے جاتے ہیں۔ یہاں سرکاری ہسپتالوںکے برعکس لیبارٹری کے اوقات بھی صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک کر دیئے گئے ہیں تاکہ کوئی شخص صرف میڈیکل ٹیسٹوں کی وجہ سے علاج سے محروم نہ رہ جائے۔ میں جب بھی ڈاکٹر جاوید ندیم بٹ ای این ٹی سپیشلسٹ سے ملنے جاتا ہوں تو انسانوں کا جم غفیر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارا لاہور یہاں علاج کیلئے چلا آیا ہے۔ اگر حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب حجاز ہسپتال کی مالی سرپرستی کرے تو ہسپتال کی عمارات کو اب مزید وسعت دینا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ بہرکیف حاجی انعام الٰہی کی سرپرستی اور سہیل اقبال کی صدارت میں یہ مخیر لوگ علاج و معالجہ صرف ہسپتال تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ارد گرد کی چھوٹی اور غریب آبادیوں میں ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں فری کیمپ بھی لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید تجمل خان کی نگرانی میں ڈیلسز وارڈ کا افتتاح بھی ہو چکا ہے جبکہ جنرل سرجری ٗ آرتھوپیڈک ٗ گائنی واوبس ٗ ای این ٹی ٗ نیورو سرجری ٗ یورالوجی کے شعبوں میں اینڈو سکوپک طریقہ سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔ حجاز ہسپتال کو مقبول عام کرنے اور عروج پر پہنچانے میں حاجی انعام الٰہی اثر کے بعد عبدالوحید مرحوم ٗ بیگم تسنیم فردوس ٗ محبوب اقبال ٹاٹا ٗ شیخ محمد نعیم ٗ انجینئر عبدالرئوف شہزادہ ٗ ایس ایم اشفاق ٗ عطا الرحمن ٗ بیگم خالدہ بزدار ٗ مسز فریدہ ظہور ٗ مسرت قیوم ٗ صلاح الدین صحاف ٗ شہناز سعید کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہاں فنڈ ریزنگ کی انچارج مسرت قیو م ہیں جو بہت مستعدی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
حجاز ہسپتال لاہور میں ڈبل شفٹ کا اجرأ ، مستحسن قدم
Apr 13, 2014