ایڈہاک ڈاکٹروں کی بھی سن لی جائے

جب دکھی انسانیت کے دکھ دور کرنے والے خود دکھوں کا شکار ہو جائیں یہ بجائے خود دکھی کر دینے والا عمل ہے لیکن جب وہ ناانصافی کا شکار بنا دئیے جائیں تو یہ دکھ نہیں ظلم و زیادتی ہے اور جب اس فعل قبیح کی ذمہ دار ریاست بن جائے یہ ظلم و زیادتی سے آگے کی بات بن جاتی ہے۔ یہ مرد اور خواتین ڈاکٹرز ہیں جو اپنے طور پر ناکام کوششوں کے بعد میڈیا کے ذریعے اپنی بات وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لئے پریس کلب میں موجود تھے۔ ان کے معاملے کے دو پہلو ہیں ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہ اپنی ڈاکٹرز برادری سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے اور ان لمحات میں جب وہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال پر تھے۔ یہ ان کی جگہ ہسپتالوں میں پہنچ گئے اور اس طرح حکومت پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا دبائو کمزور پڑ گیا ہے جبکہ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ 2012ء میں جب ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث گورنمنٹ ہسپتالوں میں آئوٹ ڈور، ان ڈور حتیٰ کہ ایمرجنسی سروسز معطل ہو کر رہ گئی تھیں عوام علاج کے لئے ترس رہے تھے اخبارات میں پریشان حال مریضوں کی دل ہلا دینے والی خبریں اور تصاویر شائع ہو رہی تھیں۔ ٹی وی چینلوں پر روح فرسا مناظر دکھائے جا رہے تھے، تڑپتے کراہتے مریضوں کی حالت زار نے عوامی سطح پر ایک اضطرابی کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ لوگ حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے تھے اور انسانیت کی خدمت کے دعویدار ینگ ڈاکٹرز کے لئے دکھی انسانیت اجنبی بن چکی تھی تب ان نوجوان ڈاکٹروں میں انسانیت کے جذبہ نے انگڑائی لی مریضوں کی مشکلات اور حکومت کی اپیلوں پر یہ ہسپتالوں میں پہنچ گئے ان کے ہسپتالوں میں ڈیوٹی سنبھالنے پر سخت مشکلات میں گھری حکومت اور شدید تکالیف میں مبتلا مریضوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ان ڈاکٹروں کو ایڈہاک تقرری نامے جاری کئے گئے جن کی میعاد 10 جنوری 2014ء کو ختم ہو گئی اور تجدید نہ ہونے کے باعث اب یہ نوجوان ڈاکٹر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ (ن) لیگ کی حکومت نے ان ڈاکٹروں کو مصیبت کے وقت اپنے لئے استعمال کیا اور اب کچرے میں پھینک دیا ہے۔ ایسے ہی حالات میں 2011ء میں بھرتی کئے گئے ایڈہاک ڈاکٹروں کو بدستور بحال رکھا گیا جبکہ 2012ء کے ایڈہاک ڈاکٹروں کو گھر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ یہ امتیازی سلوک سراسر ناانصافی ہے۔ 2012ء کے ایڈہاک ڈاکٹروں اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے وابستگان کی بحالی کے باوجود پنجاب میں ڈاکٹروں کی کمی پوری نہیں ہوئی ہے۔ ہزاروں طلبا و طالبات کو جمع کرکے قومی پرچم بنانے اور ترانہ گانے جیسے اقدامات پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کرنے سے پنجاب کے عوام کو کسی اعتبار سے فائدہ نہیں ہوا نہ ہی یہ باعث افتخار ہے۔ عام لوگ تو کیا خود اس عمل میں شریک نوجوانوں کی جانب سے اس پر فخر کا اظہار سامنے نہیں آیا بلکہ اس عمل میں طلبا بالخصوص طالبات کی آمد و رفت میں مشکلات اور کرپشن کے الزامات نے حکومت کے لئے سرخروئی کا سامان نہیں کیا ہے۔ یہ کثیر رقم اگر سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنانے یا ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے کے لئے استعمال کی جاتی تو عام لوگوں کو ملنے والی علاج کی سہولت از خود حکمرانوں کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتی۔ ایڈہاک نرسوں اور لیڈی ہیلتھ ورکروں کو بحال و ریگولر کر دیا گیا ہے کیا ضروری ہے کہ ان ہی کی طرح یہ ایڈہاک ڈاکٹرز بھی سڑکوں پر آئیں۔ ٹریفک بلاک کریں پولیس سے تصادم ہو تب ان کی سنی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی درد دل رکھتے ہیں اور ان کے مشیر سلمان رفیق بھی ہمدرد نوجوان ہے۔ بہتر ہے کسی ناخوشگوار صورتحال سے پہلے ان کی دادرسی کر دی جائے۔ ان ایڈہاک ڈاکٹروں کی وجہ سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ میری موجودگی میں درددل رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر سلمان کاظمی نے ڈاکٹر آرزو علی کو تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اعتماد رکھنا چاہئے یہ یقین دہانی عملی تعاون کی شکل اختیار کرے گی اور ان ایڈہاک ڈاکٹروں کو سڑکوں پر خوار نہیں ہونا پڑے گا۔ سینئر ڈاکٹرز بھی اگر ان پر دست شفقت رکھیں تو یہ ان ہی کے شاگرد تربیت یافتہ اور بیٹے بیٹیوں کی طرح ہیں۔

ای پیپر دی نیشن