ایک فرد کو سزا دینے سے نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا‘ لوگوں میں قانون پر چلنے کا احساس ہونا چاہیے : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی+ نیٹ نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا  ہے کہ عدالتوں میں فیصلوںکی تعداد سے نہیں بلکہ انکے معیار سے عوام کو انصاف ملتا ہے۔ اچھے فیصلوں سے ایک طرف غلطی کرنے والوں کو سزا ملتی ہے جبکہ معاشرے کے دیگر افراد غلطی کرنے سے رک جاتے ہیں اور معاشرہ امن کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ پرویز مشرف کیس عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے وہ کسی طرح کی رائے تو نہیں دے سکتے مگر اتنا ضرور کہتے ہیں کہ اس کیس میں ہونے والی پیش رفت نے قانون کی بالادستی کو ثابت کر دیا ہے۔ انصاف کے عمل کو سپورٹ کرنے میں میڈیا کا کلیدی کردار ہے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پریس کونسل آف پاکستان کے زیراہتمام ’’عدالتی رپورٹنگ اور انصاف کی فراہمی‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ عدالتی فیصلوں کا بنیادی مقصد نظام کی درستگی ہے جو کسی ایک فرد کو سزا دینے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ نظام اسی وقت ٹھیک ہو گا جب لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ہم نے قانون پر چلنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں وکلائ، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اہم تریں کردار ادا کیا۔ عدلیہ اس تحریک میں میڈیا کے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔ عدالتی رپورٹنگ کا مجموعی معیار اعلیٰ ہے۔ عدالتی رپورٹرز کیلئے مشورہ ہے کہ وہ اہم مقدمات میں خبر بناتے ہوئے آپس میں مشاورت کر لیا کریں یہ مثبت رجحان ہے جو ہر پروفیشن میں اختیار کیا جاتا ہے۔ مقدمات کی ایسی رپورٹنگ ہونی چاہئے جس سے عدالتوں کا وقار اور ساکھ متاثر نہ ہو۔ ججز اپنے منصب کے لحاط سے کسی بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔ اس میں بارے میڈیا نے ججز کا دفاع کرنا ہے۔ اس کا مقصد کسی کی غلطی کا دفاع کرنا نہیں بلکہ انصاف کے عمل کو سپورٹ کرنا ہے۔ عدالتیں وکلاء کے بغیر فیصلے نہیں کر سکتیں۔ ایسا بار کی بہتر معاونت سے ہی ممکن ہے۔جب وکالت کا قانون کے مطابق تجزیہ سامنے آتا ہے پھر سائلین کو بہتر اصاف ملتا ہے۔وکلاء نے عدلیہ بحالی کی تحریک ایک پتہ توڑے بغیر چلائی جس میں میڈیا اور سول سوسائٹی کا بھرپور تعاون شامل تھا۔ عدلیہ وکلاء کی اس خدمت کو کبھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ پاکستان کا تصور دینے والے علامہ اقبالؒ اور مملکت پاکستان بنانے والے قائداعظمؒ بھی وکیل تھے۔ چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان راجہ شفقت عباسی نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور رہنا چاہئے۔ میڈیا کا آزاد ہونا ایک شہری کو اس کا حق دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے عدالتی رپورٹنگ کو اہم ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں انتہائی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ رپورٹنگ مزید موثر بنانے کیلئے عدالتی رپورٹرز کیلئے تربیتی کورسز کا اجراء کیا جائے۔ پریس کونسل آف پاکستان پہلے بھی اس طرح کے سیمینارز کا انعقاد کر چکی ہے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ روز نامہ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کے ساتھ عدالتی رپورٹنگ میں فاضل عدالتوں کا تقدس ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ بعض دفعہ ایسی خبریں آجاتی ہیں کہ عدالتوں میں وہ کارروائی ہوئی ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے محض قیاس آرائی پر فاضل بنچ ٹوٹنے کی خبر نشر کر دی اور اس پر ٹاک شوز بھی ہوئے۔ جارحانہ روئیے سے سوسائٹی کا کیا رنگ ہو گا؟یہ سوچنے کی بات ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ عدلیہ اور میڈیا پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کو ٹیسٹ کیس بنا لیں۔عدل و انصاف کی برتری کیلئے اگر پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کو نتیجہ تک لے کر جانا ہے تو اسکی اِن کیمرہ سماعت کی جائے۔ اس کیلئے عدلیہ بھی واضح پالیسی اپنائے اور میڈیا بھی قربانی دے۔ ملزم کے نئے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے بیان کو پلے باندھ لینا چاہئے۔ اگر کوئی غیرآئینی اقدام کے ذریعے ادارے کی ساکھ خراب کرتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ ادارہ اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ ماضی کی نسبت عدالتی رپورٹرز کیلئے اب بہت آسانیاں ہیں۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آزاد عدلیہ میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک نے عدلیہ، وکلاء اور میڈیا کو بہت قریب کر دیا۔ اگر ان کے درمیاں کچھ فاصلہ بڑھا دیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔عدالتی رپورٹرز کیلئے ایک معیار مقرر ہونا چاہئے۔ یہ معیار عدلیہ مقرر کرے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چودھری نے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے عدالتوں میں فعالیت آئی۔ انتہائی اہم خبرون پر عدالتوں نے از خود نوٹسز لے کر لوگون کی دادرسی کی۔ مگر اس کے ساتھ میڈیا کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے جو صحافی تنظیمیں بنائیں۔ وہ وکلاء تنظیموں میں مثبت اصلاحات کیلئے کام کر رہے ہیں۔ سیمینار کے آخر میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پریس کونسل آف پاکستان کی طرف سے عدالتی رپورٹرز کو سرٹیفکیٹ دیئے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی نے ادا کئے۔ سیمینار میں ہائیکورٹ کے ججز، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ، ضلعی عدلیہ کے ججز، پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے افسروں، وکلاء اور صحافیوں نے شرکت کی۔ نیٹ نیوز اور آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ مشرف کیس زیرسماعت ہے، اس پر وہ تبصرہ نہیں کر سکتے تاہم اس کیس سے ثابت ہو گیا کہ قانون کی بالادستی ہے۔ عدلیہ اچھا فیصلہ دے تو معاشرے میں امن ہو جائیگا، فیصلوں کی تعداد سے نہیں، معیار سے بہتری آتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ناانصافی ختم نہیں کی جا سکتی ،اس پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ شیطان نے اب تک زندہ رہنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ آج ایک جیتا جاگتا ادارہ ہے، تفتیش کرنا اور شہادتیں اکٹھی کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔ ناقص تفتیش کی وجہ سے عدالتی کام متاثر ہوتا ہے۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافی رپورٹنگ سے عدالتی فیصلوں کو متنازعہ نہ کریں۔ صحافیوں کی خبر سے عدالت میں زیرسماعت کیس اثرانداز ہونے کے علاوہ عدالتی وقار بھی مجروح ہو سکتا ہے، عدلیہ کا اچھا فیصلہ سوسائٹی میں امن پیدا کرنا ہے۔ صحافی ججز کا تحفظ کریں کیونکہ وہ اپنے خلاف خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...