اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ رائٹر+ اے ایف پی) سعودی مشیر اعلیٰ برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ العمار نے کہا ہے کہ یمن کے مسئلے پر پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے، یمن میں ایک طرف باغی ہیں اور دوسری طرف قانونی حکومت ہے جو مظلوم ہے۔ ایسی صورتحال میں ثالثی کی بات مذاق کے مترادف ہے۔ نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ مملکت سعودی عرب ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کی داعی رہی ہے، ہم امت مسلمہ میں موجود فرقوں کا وجود تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی۔ ہمارے دروازے پوری دنیا کیلئے کھلے ہیں۔ یمن کی صورتحال ہرگز فرقوں کی جنگ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ جنگ آج سے ایک ہزار سال پہلے چھڑ چکی ہوتی۔ یمن میں زیدی اور شافعی ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور محبت کے رشتوں میں جڑے ہیں۔ زیدی سنیوں کی مساجد میں نماز ادا کرتے، باہم شادیاں ہوتی ہیں۔ اس جنگ کا دین اور مذہب سے تعلق نہیں، یہ خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے، یمن میں باغیوں نے قانونی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر رکھی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، یمن میں حوثی آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں، کوئی بھی ایک فیصد آبادی کو نناوے فیصد پر بزور طاقت مسلط ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حل یہی ہے کہ باغی ہتھیار پھینک دیں اور قانونی حکومت بحال ہو۔ حوثی انتخابات میں حصہ لے کر حکومت حاصل کریں ہمیں اعتراض نہیں۔ عرب امارات کے وزیر کا بیان ان کا اپنا موقف ہے، ان کے موقف پر کوئی بات نہیں کہنا چاہتا۔ ان کا بیان شکوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ پر غصہ بھی وہی کرتا ہے جو آپ سے محبت بھی کرتا ہے۔ سعودی حکومت نے کئی سال حوثیوں سے مذاکرات کئے مگر اچانک حوثیوں نے بغاوت کر دی۔ طلباء کا قتل عام کیا، سکول یونیورسٹیاں بند اور تباہ کر دیں۔ یمن کے صدر ہادی نے خلیجی ممالک سے مدد کی درخواست کی جس پر اتحادی افواج کا قیام عمل میں آیا اور کارروائی شروع کی گئی۔ ہم مظلوم کا ساتھ دینگے، ظالم کا ہاتھ روکیں گے۔ باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوا کرتے، باغی ہتھیار پھینک دیں تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ حوثی باغی تین سال سے سعودی سرحدی علاقوں پر حملے کرتے آ رہے ہیں، جس دن سے جنگ شروع ہوئی ایران سے روزانہ کی بنیاد پر اسلحے سے بھرے تین بحری جہاز یمن پہنچ رہے ہیں۔ حزب اللہ نے حوثیوں کو عسکری تربیت دی، شواہد ہیں کہ ایرانی فورسز اور حزب اللہ موجودہ کارروائیوں میں شریک ہیں۔ خلیجی ممالک نے بیرونی مداخلت ختم کرنے کی تجویز دی۔ پاکستان اور سعودی عرب کا باہمی گہرا تعلق ہے، سعودی عرب امن، جنگ، خوشی اور غمی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم یک جان دو قالب ہیں، اگر عالم اسلام کا کوئی تالہ ہے تو اس کی دو چابیاں پاکستان اور سعودی عرب ہیں، پاکستانی عوام، مذہبی جماعتوں اور سیاسی قائدین کا موقف سعودی عرب کے بارے میں بہت مضبوط ہے، اتحادی افواج بڑا کام مکمل کر چکی ہیں، ہماری یمن کے ساتھ کوئی جنگ نہیں، باغیوں کی قوت توڑ دی ہے، پاکستان سے ہر بات پر مشورہ کرتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس معاملے پر یقیناً مشورہ ہو گا۔ ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مشورہ کرنے کے عادی ہیں۔ یقین ہے کہ پاکستان ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ سعودی عرب نے پاکستان سے بحری، فوجی امداد طلب کی ہے۔ عسکری حکام تفصیل بتا سکتے ہیں پاکستان کے ساتھ حقیقت میں کوئی ملک مخلص ہے تو وہ صرف سعودی عرب ہے، پاکستانی عوام سے کہوں گا کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں جس کی قدر کرتے ہیں، یہ فرقہ واریت کی جنگ نہیں۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کے بعد عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین احمد بن محمد الجروان نے بھی پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں غیرجانبدار رہنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق احمد بن محمد الجروان نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا فیصلہ عرب اور اسلامی ممالک کے موقف سے متصادم ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ محمد انور قرقاش کی جانب سے پاکستان پر سخت تنقید کے بعد ’’گلف نیوز‘‘ نے بھی اپنے ادارئیے میں اسلام آباد کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور ادارئیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی یمن اور سعودی عرب کے تنازعے میں پالیسی مبہم ہے، اسے خلیجی ممالک کے حوالے سے واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے کیونکہ خلیجی ممالک پاکستان کی برسوں سے معاشی اور سماجی مدد کرتے آئے ہیں۔