وزیر اعظم کے پنجاب میں ایم این ایز کو گیس سکیمیں دینے پر پیپلز پارٹی تحریک انصاف کا ہنگامہ

Apr 13, 2017

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں وزیر اعظم کی جانب سے پنجاب کے 77 ایم این ایز کو گیس سکیمیں دینے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی، ہنگامہ آرائی کی۔ شیم شیم اور نو نو کے نعرے‘ اپوزیشن ارکان نے وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال کی وضاحتیں سننے سے انکار کر دیا اور الزام عائد کیا کہ گیس کی صوبہ وار تقسیم میں آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ گیس سمیت وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم سے (ن) لیگ فیڈریشن کو تقسیم کر رہی ہے‘ سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں گیس پیدا کرتے ہیں‘ سکیمیں پنجاب میں دی جا رہی ہیں‘ کل سندھ کے عوام گیس کی غیر منصفانہ تقسیم پر اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا بنگالیوں کی طرح ان پر بھی گولیاں چلائی جائیں گی۔ شمس النساء کے سوال کے جواب میں وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ دوہری شہریت کے حامل ججز کے حوالے سے سپریم کورٹ‘ سندھ اور لاہور ہائی کورٹ سے نام موصول نہیں ہو رہے۔ آئین و قانون اور کوئی ضابطہ ججز پر دوہری شہریت رکھنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت سارے منصوبے پنجاب میں دے رہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے پی میں سکیمیں نہیں دی جا رہیں کیوں فیڈریشن کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے دور میں برابری کی بنیاد پر منصوبے تقسیم کئے، ہمارے کارکن عدالت پیش کرنے، پختونوں کے شناختی کارڈ بحال کرنے تک پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے۔ متحدہ اپوزیشن نے بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے واک آئوٹ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بدھ کو قومی اسمبلی میں کورم کی نشاندہی کے معاملے پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ کورم پور انکلا تاہم ایوان سے اپوزیشن ارکان کے بائیکاٹ کے موقع پر یکطرفہ طور پر پاکستان کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2017ء کو منظور کر لیا گیا۔ ایوان میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے پاکستان کی معیشت کے بارے میں بنک دولت پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی دوسری سہ ماہی رپورٹ برائے 2016-17ء پیش کی۔ لاپتہ ہونے والے افراد کے حوالے سے اور پختونوں کے لاکھوں شناختی کارڈ بلاک ہونے پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پختونخوا ملی پارٹی کے ممبران نے واک آؤٹ کیا اور حکومت پر شدید تنقید کی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ جب تک حکومت لاپتہ افراد کو کورٹ میں پیش کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتی اس وقت تک احتجاج جاری رہیگا اور ایوان میں آئین کی حدود میں رہتے ہوئے روزانہ احتجاج کریں گے۔ جس کو بھی دہشتگردی پر کسی الزام میں پکڑا جائے اسے24گھنٹے میں مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ 10دن نہیں گزرے کہ 3 افراد اغواء ہو گئے۔ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اخباروں میں چھپا کہ زرداری کے دوست ہیں، آج اگر مسلم لیگ (ن) ، ایم کی وایم یا کسی بھی پارٹی کے ورکر اغواء ہوئے تو بھی میں آواز اٹھاتا۔ نہیں جانتے یہ تین افراد مجرم ہیں یا نہیں یہ فیصلہ تو قانون کرے گا۔ اس طریقے سے لوگ اٹھا کر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ کہیں پر جلسے نہ ہوں مگر پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھیں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اسمبلی مدت پوری نہیں کریگی۔ پختونوں کے حقوق کے لئے شناختی کارڈوں کے لئے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کی کوئی شناخت چھینے گا تو پاکستان پیپلز پارٹی وفاق پر یقین رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم کے لاپتہ افراد واپس لا کر مقدمات چلائیں۔ سزائیں دیں ان سب کو پیش کرنے کا یقین دلائیں تب احتجاج ختم کریں گے۔ متحدہ کے کمال الدین نے کہا اگر ہمیں 1992ء کا جواب دے دیا جاتا تو آج کسی پارٹی کے کارکنان لاپتہ نہ ہوتے۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے ارکان اور سابق صدر زرداری کے دوستوں کے لاپتہ ہونے کیخلاف پیپلزپارٹی نے احتجاجاً سینٹ اور قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا۔ خورشید شاہ نے بتایا ہے کہ کل تک جواب نہ ملا تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رہیگا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ گرفتاریوں میں وزارت داخلہ کا کوئی کردار نہیں۔ قبل ازیں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین نہ دلایا تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔ حکومتی دہشت گردی برداشت نہیں کر سکتے۔ دریں اثناء چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے وزارت بین الصوبائی رابطہ کی جانب سے ایوان میں غلط جواب دینے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ خیراتی ادارہ نہیں ہے، وزارتوں کا پارلیمنٹ کے حوالے سے رویہ غیرسنجیدہ ہے، آئندہ ایوان بالا میں غلط جواب دیا گیا تو برداشت نہیں کروں گا اور متعلقہ افسر کونوکری سے برخواست کرنے کی سفارش کروں گا۔ قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے کسی جج کی دوہری شہریت نہیں ہے، بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قوانین پر موثر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، ملک میں ٹرانسپورٹ پالیسی موجود ہے‘ تمام صوبوں میں وزیر ٹرانسپورٹ اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ کام کر رہے ہیں‘ ایل این جی کا 600 ایم ایم سی ایف ڈی کا ایک ٹرمینل بنایا گیا ہے، دوسرا بن رہا ہے جس سے ملک میں گیس بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ سینٹ کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ رواں سال وزیراعظم نوازشریف کے بیرون ملک3 دوروں پر 80.1 ملین روپے اخراجات آئے، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 22 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے، موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں شاہراہوں اور موٹرویز کی تعمیر پر 3کھرب 76 ارب 79کروڑ روپے خرچ کیے گئے، پنجاب میں 1 کھرب 36 ارب، 99 کروڑ روپے شاہراہوں اور موٹرویز کی تعمیر پر خرچ کیے گئے، افغانستان میں اس وقت 218پاکستانی قید ہیں، وزیراعظم کسان پیکیج کے تحت اب تک پنجاب کے 33اضلاع میں 10لاکھ 80ہزار 293 کاشتکاروں کو 23.67 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ ارکان کے سوالوں کے جواب وفاقی وزیر پارلیمانی شیخ آفتاب احمد، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر بوسن، وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ، وزیر مملکت تعلیم بلیغ الرحمان نے دیئے۔ سینیٹر احمد حسن کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت تعلیم بلیغ الرحمان نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمشن کی جانب سے مالی سال 2015-16 کے درمیان خیبر پی کے میں سرکاری یونیورسٹیوں کو 12532.604 ملین روپے کے فنڈز دیئے گئے۔ سینیٹر اعظم خان سواتی کے سوال کے جواب میں وزیرمملکت صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 22 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ سینیٹر ہوزی خان کاکڑ کے سوال کے جواب میں وزارت خارجہ امور نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ 2017کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک دوروں پر 80.1 ملین روپے اخراجات آئے۔بی بی سی کے مطابق خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ لوگوں کے لاپتہ ہونے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ طاقت کے سامنے آئین کی کوئی حیثیت نہیں۔

مزیدخبریں