اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں قتل کے متفرق مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ذو معنی انداز میں’’پانامہ پیپرز لیکس کیس‘‘کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ اس کے لئے قابل قبول ہو گا ،آج کل یہ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ جو بھی کسی کے خلاف عدالت میں آتا ہے، باہر جاکر کہتا ہے کہ اسے عدالت کا ہرفیصلہ قبول ہگا جبکہ فاضل عدالت نے 10 سال قبل تھانہ سٹی ایبٹ آباد کے علاقہ میں 8 سالہ بچے کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے اور اسکے بعد اسے قتل کردینے کے مقدمہ میں سزاپانے والے ملزموں کی اپیلوں کی سماعت کے دوران انہیں،استغاثہ کی کمزوریوں اور ناقص تفتیش کی بنا پر بری کردیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ خیام نابالغ بچہ تھا، پولیس دبائو کے تحت بھی اس سے بیان دلوا سکتی ہے جبکہ ملزم کا اقبالی بیان قانون کے مطابق بھی نہیں تھا، جیل میں بند ملزم شعیب نے عدالت کو تحریری طور پر بتایا تھا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کریگی وہ اسے قبول ہوگا،انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ اس کے لئے قابل قبول ہو گا ،آج کل یہ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ جو بھی کسی کے خلاف عدالت میں آتا ہے، باہر جاکر کہتا ہے کہ اسے عدالت کا فیصلہ قابل قبول ہوگا،بعد ازاںفاضل عدالت نے ریکارڈ کا جائزہ لینے اور وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد قراردیا کہ استغاثہ میں سقم کے باعث کیس ثابت نہیں ہوتا ہے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ،پولیس اپنے انداز سے ملزموں تک پہنچ جاتی ہے، استغاثہ کا مقصد ملزم کی گرفتاری نہیں سزا دلوانا ہوتا ہے، برسوں سے کہہ رہا ہوں ملزموںکی شناخت پریڈ الگ الگ ہونی چاہیے، ریاست جوڈیشل افسروں کی تربیت کرے، گواہی سچی نہ ہو تو سزا کیسے دی جا سکتی ہے، بدقسمتی سے پولیس حکام کو قانون سے آگاہی نہیں ہو سکی،پولیس کو شاید اس لیول تک تربیت ہی نہیں دی جاسکی کے قانون کی سمجھ ان کو آئے،وقوعہ رات کو ھوا جب پراسیکیوشن موقعے پر روشنی کا ہونا ثابت نہیں کر سکا،میڈیکل سٹور پر ڈکیتی ہوئی کچھ تو الیکٹرک لائیٹس دستیاب ہو نی چاھیئے تھی،ایف آئی آر میں ملزموں کے نام کے اندراج کی بجائے نامعلوم ملزموںظاہر کئے گئے،عینی شاہدین کا بغیر کسی وجہ سے موقعہ واردات پر موجود ہونا بھی مشکوک ہے۔ اسی عدالت نے ہی قتل کے ایک اور مقدمہ میں ملوث ملزم محمد نعیم کی اپیل کی سماعت کے دوران اس کی سزائے موت کو عمرقیدمیں تبدیل کردیاہے ، جسٹس کھوسہ نے کہاکہ مقدمہ کے وقوعہ کے گواہان دو سگے بھائی تھے ، جنہوں نے حلف پرجھوٹ بولا ہے ،حلف میں کہاجاتاہے کہ اگر میں جھوٹ بولوں تومجھ پراللہ کاعذاب نازل ہو، ملزموں کا بری ہونابھی عذاب ہی ہوتاہے،ملزمان بری ہو جاتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ قتل توہواہے۔