اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں انسانی اعضا ءکی غیر قانونی خریدوفروخت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کردی ہے انہوں نے ریمارکیس دیئے کہ معاملے کو ایک فردکے حوالے سے نہیں بلکہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے اس مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کو تلاش کےا جائے وہ زمین پر ہی ہیں خلا میں نہیں ۔ عدالت نے ایس ایس پی اسلام آباد کو معاملہ کی تحقیقات کے لئے مہلت دیتے ہو ئے کیس کی مزید سماعت ڈیڈھ ماہ کے لئے ملتوی کردی ہے ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے کوعمران نامی شخص کا گردہ نکالنے سے متعلق ازخود خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ایس ایس پی (آپریشن )ساجد کیانی نے آئی جی اسلام آباد کی جانب سے رپورٹ پیش کی جسے عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے گردہ خریدا تھا وہ کہاں گیا ہے؟ جس ہسپتال میں اس کی پیوند کاری کی گئی تھی وہ کہاں ہے، محمدعمران کاگردہ نکالنے کامعاملہ اسلام آباد میں پیش آیا اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں ؟ تو ایس ایس پی نے کہا کہ تحقیقات چل رہی ہیں،ایف آئی آر میں 3افراد نامزد کیے گئے تھے جن میں سے2کوگرفتارکر لیا گیا ہے چیف جسٹس نے پوچھا عمران کا گردہ نکالنے کامعاملہ کس اسپتال میں پیش آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ پتانہیں چل سکاکہ متاثرہ شخص کاگردہ کس اسپتال میں نکالا گیا ہے ،ابھی ملزمان ریمانڈ پر ہی تھے کہ مدعی نے ان کے ساتھ راضی نامہ کرلیا تھا ،اس لئے قانون کے مطابق ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ غیرقانونی طریقے سے گردے نکالنا ہمارے معاشرے کاناسور ہے، آپ اس کیس کو ایک شخص کی حد تک نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ یہ کاروبار شہر کے کس کس علاقہ میں واقع ہسپتالوں میں ہو رہا ہے ،اور کون کو ن لوگ اس میں ملوث ہیں، جس اسپتال میں گردہ نکالاگیاوہ خلاءمیں تو نہیں اسی زمین پرہی ہوگا،آپ کو ان اسپتالوں کی نشاندہی کرنی ہے جہاں پر یہ مکروہ دھندہ ہوتاہے۔