ہمارا یہ خطہ برعظیم جنوبی ایشیا جغرافیائی لحاظ سے بے حد اہم اور بہت نمایاں حیثیت رکھتا ہے‘ اسکا محل وقوع ‘ زرخیزی پیداواری وسائل اور اسکے ہنرمند باشندے ہمیشہ سے بیرونی دنیا کیلئے پرکشش اور توجہ کے قابل رہے ہیں‘ تاریخ میں جتنے فاتحین‘ مہم جو اور حملہ آور یہاں آتے رہے ہیں‘ اتنے کسی اور خطہ زمین پر کبھی نہیں آئے‘ آخری حملہ آور انگریز تھا لیکن طویل اور شاندار حکمرانی مسلمانوں کے حصہ میں آئی جن میں عرب‘ ترک اور ایرانی مسلمان بھی تھے مگر بہت بڑی تعداد میں مقامی لوگ ہی تھے‘ نام نہاد اونچی ذات کے ہندو آریائی نسل سے ہیں مگر حملہ آور ہونے کے بعد سے آج تک گھمنڈی برہمن ان کا رہنما بلکہ دیوتا چلا آتا ہے جس نے یہاں کے اصل باشندوں ۔ دراوڑوں ۔ سے مسلسل جنگ جاری رکھی ہوئی ہے‘ انہیں اپنے طبقاتی لعنت میں جکڑے ہوئے ہندو معاشرہ میں اچھوت بنا کر چوتھا درجہ دے رکھا ہے اور یہ بیچارے ہزاروں سال سے جانوروں سے بھی بدتر حالات میں زندگی گزارنے پر محبور ہیں‘ مسلمانوں نے یہاں ہزار سال سے زائد عرصہ حکومت کی ہے اور پورا جنوبی ایشیا صرف ان کی حکمرانی میں رہا ہے مگر وہ‘ بڑی کوشش کے باوجود یہاں کی اونچ نیچ کو ختم کرکے انسانی برادری اور برابری (اخوت و مساوات) کا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ اسی وجہ سے ہندوستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں مسلمان اکثریت نہ بنا سکے جس کا خمیازہ انہیں آج بھی یہاں گھمنڈی برہمن کی دہشت گردی اور زبردستی مذہب چھڑوانے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ جنوبی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جو وسائل اور پیداوار کے لحاظ سے نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ دنیا کی کفالت بھی کر سکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے نئے اور پرانے مہم جو حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے‘ اونچی ذات کے ہندو اور گھمنڈی برہمن کے بڑے آریا بھی مہم جو حملہ آور ہی تھے‘ آخری مہم جو حملہ آور یورپ کے گورے ہیں جو جاتے ہوئے خوفناک مسائل بھی کھڑے کر گئے ہیں اور ہندو برہمن کے کان میں ہندو اکثریت ہونے اور حکمرانی کا واحد حقدار ہونے کی لوری بھی سنا گئے ہیں اور ستر سال سے برہمن اسی نشے میں پاگل ہوا پھرتا ہے‘ گھمنڈی برہمن جنوبی ایشیا کی واحد سپر پاور بننے کیلئے تو بے قرار ہے مگر سارک جیسی مفید تنظیم کو گوارا نہیں کر رہا جس میں خطے میںکے تمام ممالک شریک اور منظم ہو کر خوشحال ہو سکتے ہیں مگر اس میں جب تک مسلمان اور خصوصاً پاکستان بھی شامل ہے ‘برہمن کی خالص ہندو ریاست کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا۔
یہ جنوبی ایشیا کا ایک مسلمان لیڈر تھا جنرل ضیاء الرحمن صدر بنگلہ دیش جس نے سارک تنظیم کا نظریہ پیش کیا تھا اور جنوبی ایشیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک نے اسے بصد خوشی قبول کیا تھا‘ بھارت کو بھی قبول کرنا پڑا تھا مگر اس میں برہمن کی اپنی آرزو خاک میں ملتی ہے اور اس سے زیادہ تر فائدہ پاکستان سمیت مسلمان ملکوں کا ہے اس لئے گھمنڈی برہمن تنظیم کی ناکامی کی سازشوں میں لگا ہوا ہے۔
برہمن اس فکر میں ہے کہ ایک تو یہاں کی غیر ہندو اقوام‘ مسیحی‘ بدھ مت‘ جین مت اور مسلمان یا تو مٹا دیئے جائیں اور یا ان سب کو اچھوت بنا کر برہمن کے طبقاتی معاشرہ کی لعنت میں جکڑ دیا جائے۔ برہمن یہ سب کچھ زبردستی اور دہشتگردی کا بازار گرم کرکے انجام دینا چاہتا ہے! ضرورت اس بات کی اور مودی اور یوگی نے اس کا موزوں موقع بھی فراہم کر دیا ہے‘ آج دنیا کا انسان خصوصاً امریکہ اور یورپ کا بیدار مغز‘ روشن خیال اور باضمیر انسان اس انسانیت سوز غلاظت کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا! آج ہمارے عرب بھائی بھی مودی ۔ نتن یاہو اتحاد و تعاون سے آگاہ ہو چکے ہیں‘ انہیں بھی یہ سمجھایا جا سکتا ہے کہ گھمنڈی برہمن تو اسرائیل کے سنگدل صہیونی یہودی سے زیادہ خطرناک اور اسلام دشمنی میں زیادہ مکروہ اور ناپاک ہے!
ایک وقت تھا جب ہندو کانگرس اپنے ہندو مزاج مسلمانوں کی زبانی عربوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب تھی کہ جس طرح انگریز عرب ملکوں کو ٹکڑے کرکے کمزور کر رہا ہے اسی طرح وہ ہندوستان کے ٹکڑے کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے‘ مسلمانوں کا ایک لیڈر محمد علی جناح بھی پاکستان کے نام پر ایک ٹکڑا مانگ کر ہندوستان کو کمزور کر رہا ہے‘ قاہرہ کے ہوائی اڈہ پر 1933ء میں مصری صحافیوں نے قائداعظم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کا قیام عربوں کیلئے بھی ضروری ہے‘ آج یہ وقت ہے کہ ہم عربوں کی یہ پرانی غلط فہمی دور کریں اور انہیں بتائیں کہ پاکستان ستر سال سے حق و انصاف کے تقاضے پورے کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ گھمنڈی برہمن اپنی دہشتگردی سے جنوبی ایشیا کو تمام غیر ہندو اقوام سے خصوصاً مسلمانوں سے خالی کرکے ایک خالص ہندو ریاست میں ڈھالنا چاہتا ہے مگر اس میں برہمن کی خدائی اور طبقاتی تقسیم کی لعنت میں انسانیت سوزی کے سوا کچھ بھی نہیں تو بھلا گھمنڈی برہمن جنوبی ایشیاء پر اپنی دہشتگردی مسلط کرکے یہاں کی سپر پاور بننے کا خواب پورا کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر جنوبی ایشیا کے تمام چھوٹے ملکوں کے سامنے انسانی برادری اور برابری یعنی سب انسان بھائی اور برابر ہیں کا اسلامی تصور پیش کرکے اور سارک تنظیم کو زندہ کرکے جنوبی ایشیا کیلئے عدل و انصاف اور امن و سلامتی کا تصور زندہ کرکے جنوبی ایشیا کو خود کفیل ہی نہیں بلکہ دنیا کیلئے کفالت کا سامان بھی بنوا سکتا ہے؟ یا اسے گھمنڈی برہمن کی دہشتگردی کی آماجگاہ بننے دیگا؟!