پاکستان کے مایہ ناز ادیب و مفکر اشفاق احمد نے اپنی تحریروں میں ملکی دیہی آبادی کے ماحول کی معاشرتی عکاسی کرتے ہوئے بابا رحمتے کے کردار کو اجاگر کیا تھا۔ آج اشفاق احمد اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن اُن کا تخلیقی کردار ’’بابا رحمتے‘‘کو اگر کسی نے سمجھا ہے تو وہ ہمارے محترم ثاقب نثار چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ہیں۔ جنہوں نے اشفاق احمد کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بابا رحمتے کے تصور کو اپناتے ہوئے اور لوگوں کوحاصل سہولتوں کو دیکھتے ہوئے مسائل سے نبرد آزما قوم کے لئے سہولت کاری کا راستہ بتاتے ہوئے بابا رحمتے کا روپ اختیار کرلیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ ’’بابا رحمتے ایسے ہی لگا رہتا ہے۔ کسی کی پروا نہیں، جو مرضی تنقید کرے۔ بابا وہ ہے جو لوگوں کے لئے سہولتیں پیدا کرتا ہے یہ لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔ بابا رحمتے کا تصور اشفاق احمد کی کتابوں سے لیا۔عوام کی بھلائی کے لئے کام کرتا رہوں گا‘‘ سوال یہ ہے کہ جاتی امرا کو بھلے ہی گراں گزرے ! لیکن لوگوں کے لئے یہ خوش آئند علامت ہے۔
بات یہ ہے کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح باطنی طور پر ایک بابا رحمتے ہی تھے۔ دیکھنے میں وہ ایک جینٹلمین تھے۔ اس طرح کی شخصیت شریف النفس اور وضع دار مزاج کی حامل ہوتی ہے بلکہ ان کا حسن ظن صوفیانہ ہوتا ہے اورقائد اعظم ان خوبیوں کے مالک تھے۔ اس طرح راقم یہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ قائد اعظم نہ صرف ایک صوفی تھے بلکہ وہ ایک طرح کے مملکت خداداد پاکستان کے بابا رحمتے تھے۔
صد افسوس اور بدقسمتی ہمارے ملک کی یہ رہی ہے کہ بانیٔ پاکستان کی رحلت اور وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملکی سیاست میں بابا رحمتے جیسی قیادت سے ہم محروم رہے اور ملک میں عرصہ دراز تک مارشل لائی نظام حکومت یا جمہوری لبادوں میں ملبوس آ مریت کا ملک میں راج قائم رہا۔اور سیاست کے مدوجزر میں حیراں نظروں میں کسی جمہوری بابا رحمتے کی جھلک نظر نہیں آئی۔
موجودہ حالات میں اگر ملکی سیاست میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور یہ یقین دہانی بھی کرائی جارہی ہے کہ لوگ خواہ کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں! بابا رحمتے عوام الناس کو انصاف فراہم کرتا رہے گا۔ گذشتہ ۷۰ برس کی ملکی تاریخ شاہد ہے کہ حکمرانوں نے ملک اور قوم کو کچھ بھی نہ دیا صرف اپنا الّو سیدھا کیا جیسا کہ ایوب دورِ حکومت میں خود ان کے بڑے بھائی حبیب اللہ نے اس وقت کی اسمبلی میں ایک شعر پڑھا تھا کہ ؎
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات، افکار و خیالات میںبابا رحمتے کی روح نظر آتی تھی۔ آج کے لوگ بابا رحمتے کے کردار کی نفی کرتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک فرسودہ کردار تھا لیکن فکرو نظر کی بالیدگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دراصل بابا رحمتے کا کردار ہر دور میں انقلاب آفریں رہا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ آئندہ ہونے والے قومی انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو بابا رحمتے ہی کو اپنا مرکزی خیال بنانا ہوگا کہ ہمیں ایسے ہی بابا رحمتے کی ضرورت ہے۔