مئی 1998میں پاکستان اور بھارت نے تجرباتی دھماکوں کے ذریعے خود کو ایٹمی قوت کے حامل ممالک کے طورپر دُنیا کے سامنے پیش کردیا۔ مجھے ان دھماکوں کے بعد کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا موقعہ ملا۔ ان کانفرنسوں کے شرکاءنہایت پریشانی کے عالم میں اصرار کرتے رہے کہ جنوبی ایشیاءکے دو ازلی دشمنوں کے درمیان آئندہ کوئی جنگ ہوئی تو حتمی فیصلہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی عسکری قوت وصلاحیت کے عدم توازن کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیشتر ماہرین بہت اعتماد سے یہ فیصلہ بھی سنادیتے ہیں کہ ان دو ممالک کے درمیان فیصلہ کن جنگ کی صورت میں پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس ”حقیقت“ کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان پر کڑی نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ویسے بھی ان دنوں پاکستان کو Failing Stateکے طورپر پیش کیا جارہا تھا۔ کئی ماہرین کا اصرار تھا کہ ہماری ”کمزور ریاست“ مذہبی انتہاءپسندوں پر قابو پانے میں ناکام رہے گی۔ ریاستی عدم استحکام کی وجہ سے ایٹمی ہتھیار ان انتہاءپسندوں کے ہاتھ آجائیں گے اور وہ اپنی ”سفاک جبلت“ کی وجہ سے انہیں استعمال کرنے کو بے چین رہیں گے۔
پاکستان کے بارے میں Doomاور Gloomکی کہانیاں گھڑتے ماہرین کو میں کافی حقارت سے جھٹلانے کی کوشش کرتا۔ انہیں نسل پرست ہونے کے طعنے دیتا کیونکہ وہ یہ طے کئے بیٹھے نظر آتے کہ صرف سفید فام ”مہذب اقوام“ ہی اپنے ایٹمی اثاثوں کو محض Deterrence کی صورت استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان ایسے معاشی اور سماجی اعتبار سے کمزور ممالک کے پاس ان اثاثوں کو بردباری سے سنبھالنے والی صلاحیت ہی موجود نہیں۔
ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ کانفرنس ہال میں دھواں دھار خطاب کے بعد میں جب اپنے ہوٹل کے کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوتا تو اکثر اس فکرمیں مبتلا ہوجاتا کہ مجھ سے بہت زیادہ پڑھے لکھے اور علمی اعتبار سے صرف ایٹمی قوت کے فوجی استعمال پر کئی برسوں سے تحقیق میں مصروف ماہرین کے دلائل بہت ٹھوس اور مو¿ثر سنائی دے رہے تھے۔ ان کے خدشات پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
مئی 1998 میں ہوئے ایٹمی دھماکوں کے چند ماہ بعد پاکستان اور بھارت میں کارگل کی چوٹیوں پر جنگ چھڑگئی تو میں بین الاقوامی کانفرنس میں دئیے دلائل سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس جنگ کے دوران افواہ یہ بھی پھیلی کہ پاکستان نے اپنے ایٹمی ہتھیار مبینہ طورپر استعمال کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ امریکہ کو سیٹلائٹ جاسوسی کے نظام کے ذریعے اس کا پتہ چل گیا۔ اسی باعث US Centcom کا سربراہ جنرل زینی بہت گھبراہٹ میں پاکستان آگیا۔ ہمارے سیاسی اور عسکری حکمرانوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے جمع ہوئی تصاویر دکھائیں اور پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ وہ کارگل کی چوٹیوں سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے۔ شاید اس کے دورے ہی نے ان دنوں کے وزیراعظم نواز شریف کو 4جولائی 1999کے روز امریکی صدر سے ملاقات پر مجبور کیا۔ صدر کلنٹن نے انتہائی درشتی سے پاکستان کو کارگل بھول جانے پر قائل کیا۔ وہ قائل ہوگئے تو اس کے بعد ان کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کے امکانات جو بین الاقوامی کانفرنسوں میں بہت رعونت کے ساتھ بیان کئے جارہے تھے گزشتہ شب سے مجھے بہت شدت سے یاد آنا شروع ہوگئے ہیں۔ میں کمینگی بھرے فخر کے ساتھ ان الزامات کو صدر ٹرمپ کے شام کے بارے میں اپنائے رویے کے تناظر میں رکھ کر دیکھ رہا ہوں۔
سات برسوں سے بلادِ شام میں خوفناک خانہ جنگی جاری ہے۔ بشارالاسد کی فسطائی حکومت جو وہاں کے ایک اقلیتی مسلک کے تعصبات کا شکار بھی ہے نام نہاد ”عرب بہار“ کی زد میں آئی تھی۔ اسے کچلنے کے لئے اسد حکومت نے ریاستی قوت کا بے دریغ استعمال کیا۔ فوجی مزاحمت کے علاوہ اسد حکومت کے مخالفین کے پاس بالآخر کوئی آپشن میسر نہ رہا۔ سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس مزاحمت کی حوصلہ افزائی کی۔ ایران ان کے ردعمل میں شام کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی بنائی”قدس بریگیڈ“ نے افغانستان اور پاکستان سے چند مسلکی رضا کاروں کو بھی اس جنگ میں جھونک دیا۔ لبنان کی حزب اللہ کے سینکڑوں رضا کار بھی شام پہنچ گئے۔ کوئی ایک فریق بھی مگر حاوی ہوتا نظر نہ آیا۔ Stalemateہوگیا۔ اسد حکومت کے مخالفین کو امید تھی کہ امریکہ ”فروغ جمہوریت“ کی خاطر کھل کر ان کی مدد کرے گا۔اوبامہ مگر افغانستان سے جان چھڑانے کی فکر میں مبتلا رہا۔
اس ماحول میں صدرپیوٹن کو جو یوکرین پر اپنا تسلط کھوبیٹھا تھا روس کی سپرطاقت والی پہنچ اور قوت دکھانے پر اکسایا۔ وہ جدید فوجی ہتھیاروں اور ماہرانہ حکمت عملی کے ساتھ اسد حکومت کے تحفظ کے لئے میدان میں آگیا۔ روسی فضائیہ کی وحشیانہ بمباری کی مدد اور اس کے جنرلوں کی کمانڈ کے تحت شامی افواج نے ایران ولبنان سے آئے عسکری رضا کاروں کی جنونی شرکت سے اسد حکومت کے دشمنوں کے قبضے میں آئے علاقوں کو ”آزاد“ کروانا شروع کردیا۔ امریکہ،ترکی اور سعودی عرب سفاکانہ لاتعلقی کے ساتھ اپنے Proxiesکی مشکلات کو محض تماشائی کے طورپر دیکھتے رہے۔
ریاستی رٹ کو بحال کرنے کے نام پر شام نے گزشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں باغیوں کے قبضہ میں آئے ایک علاقہ پر وحشیانہ انداز میں کیمیاوی ہتھیاروں کو بھی استعمال کیا۔ ان کا نشانہ بنی عورتوں اور بچوں کی تصویریں منظرِ عام پر آئیں تو حساس دل پریشان ہوگئے۔ ان کی پریشانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اسد حکومت کو ”سبق سکھانے“ کا اعلان کردیا۔
ٹرمپ کو شام کے مظلوم شہریوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکی میڈیا کا بیشتر حصہ ہمہ وقت یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ ٹرمپ نے روسی صدر کی معاونت سے انٹرنیٹ کی بدولت پھیلائی Fake Newsکے ذریعے امریکی رائے عامہ کو ہیلری کلنٹن کے بارے میں گمراہ کن ”اطلاعات“ فراہم کیں۔ امریکی صدارتی مہم کے دوران پیوٹن کی جانب سے ٹرمپ کو فراہم ہوئی ”کمک“ کے بارے میںان دنوں باقاعدہ تحقیقات ہورہی ہیں۔ ٹرمپ کی مجبوری ہے کہ وہ اب خود کو روس کا اصلی تے وڈا دشمن ثابت کرے۔
اسد حکومت کو کیمیاوی ہتھیاروںکے استعمال کے الزام کی بنیاد پر ”سبق سکھانا“ صدر ٹرمپ کی سیاسی ضرورت ہے۔ روس مگر اسد حکومت کی تذلیل نہیں ہونے دے گا۔ اس ارادے کو ٹرمپ تک پہنچانے کے لئے لبنان میں متعین روسی سفیر نے حزب اللہ کے ترجمان ٹی وی نیٹ ورک -المینار-کو ایک انٹرویو دیا۔ اس کے دوران اس نے بڑھک لگائی کہ امریکہ کی جانب سے شام پر کوئی میزائل پھینکا گیا تو روس نہ صرف اسے اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردے گا بلکہ اس مقام کو نیست ونابود کردیا جائے گا جہاں سے یہ میزائل فائر ہوگا۔
بدھ کی صبح بیدار ہونے کے بعد ٹرمپ کو اس انٹرویو کا پتہ چلا تو موصو ف نے بغیر کسی سے مشورہ کئے ایک ٹویٹ لکھ ڈالا۔ سادہ زبان میں اس کے ذریعے روس کو یہ پیغام دیا گیا کہ ”بچو میں شام پر اپنا ایک جدید تر میزائل پھینکنے والا ہوں۔روک سکو تو روک لو“۔
ٹرمپ کے لکھے اس ٹویٹ نے پوری دنیا کو پریشان کردیا۔ اگرچہ امریکہ ہی کی وزارتِ دفاع کو شرمندگی میں یہ بیان بھی دینا پڑا کہ ابھی تک اس کو شام پر حملے کا حکم نہیں دیا گیا۔ چند گھنٹے بعد امریکی وزیر دفاع کو Damage Control کے لئے مگر یہ بیان بھی دینا پڑا کہ امریکی افواج نے اسد حکومت کو سبق سکھانے کے چند آپشنز تیار کرلئے ہیں۔ انتظار کرنا ہوگا کہ امریکی صدر ان میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔
دنیا بھر کی اہم سٹاک مارکیٹس ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد مگر کریش ہوچکی ہیں۔ تیل کی قیمت بحرانی کیفیت میں تیزی سے اضافے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ساری دنیا کی حکومتیں فکر مندی سے What Nextکی منتظر ہیں۔ دنیا کی واحد سپرطاقت ہونے کے دعوے دار ملک کا صدر ٹرمپ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کے Failing Stateہونے کے حوالے سے بتائے خدشات کے مقابلے میں اپنے رویے سے خوف ناک حد تک غیر ذمہ دار ثابت ہورہا ہے اور اس پر قابو پانے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔
٭٭٭٭٭