سندھی گلوکارہ کا سفاکانہ قتل اور بابا رحمتے

ثمینہ دم توڑ رہی تھی اور پولیس اس پر نچھاور ہونے والے نوٹ اکٹھے کر رہی تھی۔کہتے ہیں ثمینہ سندھو سندھی صوفی شعرا کا امن و محبت والا کلام گا رہی تھی کہ نشے میں ملزم نے اسے رقص کرنے اور ٹھمکے لگانے کا نادر شاہی حکم دیا سندھ کی اس مظلوم بیٹی نے اپنی مجبوری بتائی کہ میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہوں اس لئے بیٹھ کر گا رہی ہوں ناچ نہیں سکتی کھڑا نہیں ہو سکتی‘ طاقت اور تکبر کے نشے نے مئے ناب کو سہ آتشہ بنادیا تھا طارق جتوئی نے پستول نکال کر کہا تو پھر مرنے کیلئے تیار ہو جاﺅ‘ عینی شاہدین کے مطابق مظلومہ و مقتولہ لڑکھڑاتے ہو ئے کھڑا ہونے کی کو شش کر رہی تھی کہ ایک دو نہیں ’ تین گولیاں چشم زدن میں ثمینہ سندھو کے ناتواں جسم کے آر پار ہو گئیں اور اس کی خوبصورت آواز دھماکوں میں ڈوب گئی اور وہ مجرے کی سٹیج پر دم توڑ گئی ایک نہیں دو زندگیاں و ڈیرہ شاہی کی نذر ہو گئیں ماں کے ساتھ اسکے پیٹ میں موجود بچہ بھی دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کی وادیوں میں کھو گیا۔
یہ تقریب مقامی سیشن جج صاحب کے ریڈر کے بچے کی رسم ختنہ کے حوالے سے ہو رہی تھی کوئی شادی کی تقریب نہیں تھی جس کا بعض اخبارات میں ذکر کیا گیا ہے لیکن سانحہ یہ ہے کہ سینکڑوں “معززین” کی موجودگی میں یہ بہیمانہ قتل ہوا اور کسی نے قاتل کا دست جفا جھٹکنے کی کوشش نہیں کی کسی نے قاتل کو روکا نہیں کہ انکے نزدیک گلوکارہ کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس مجلس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون کون سیاسی اور عدالتی معززین موجود تھے یہ معاملہ تو بابے رحمتے کے دائرہ کا ر میں آتا ہے۔سموں کہلانے والی گلوکارہ ثمینہ سندھو ’منگنڑ ہے۔ شادی بیاہ، خوشی یا دیگر تقاریب میں منگنڑ ہار اپنے سازندوں اور دیگر گھر کے افراد کے ساتھ جاتے ہیں اور گانے بجانے سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ موسیقی ہی سے ان کے گھر کا چولہا چوکا ہوتا ہے۔
مقامی سندھی صحافیوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس تقریب میں موجود طارق جتوئی اور اسکے دو دیگر ساتھیوں نے گلوکارہ کے نہ اٹھنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا اور اسے بے ادبی قرار دیا۔ گلوکارہ نے بتایا کہ وہ حاملہ ہے اور کھڑی ہوکر گانا نہیں گا سکتی۔ ان افراد کی حالت اور ان کی بڑھتی ہوئی بدتمیزی پر مجبور گلوکارہ نے آخر کار کھڑے ہوکر گانے کا فیصلہ کیا اور جیسے ہی وہ سٹیج پر کھڑی ہوئی۔ اسکے سینے میں گولیاں اتار دی گئیں۔ جس سے وہ شدید زخمی ہوئی اور پھر موت کی نیند سوگئی۔ اس واقعہ پر مقامی پولیس نے جو کام کیا وہ ہمارے معاشرے اور حکومتی سیاہ انتظام کاری کا منہ بولتا ایک اور ثبوت ہے۔ کنگا تھانہ کی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور گانے بجانے والوں کو ہی دھر لیا۔ سازندوں کو نہ صرف ساتھ لے گئی بلکہ رات بھر کی محنت سے 30 ہزار روپے کی کمائی بھی ہتھیالی۔ مظلوم سازندوں اور انکے ساتھی فنکاروں نے رات ڈیڑھ بجے حال دہائی مچائی اور احتجاج کیا۔ جس کی خبر متعلقہ ایس ایس پی تک پہنچی اورمتعلقہ ایس ایچ او لیاقت علی کھجڑکو معطل کردیاگیا۔
میں سوچتا ہوں کہ میڈیا کو دن رات گالیاں دینے والے حکومتی کارندے کیا جانیں کہ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ثمینہ سموں کے ساتھ ہونے والی یہ غنڈہ گردی عوام تک پہنچی۔ میڈیا اگر کہرام برپا نہ کرتا تو کیا اس قتل کی بازگشت کسی کان تک پہنچتی۔
اس واقعہ کو دبانے کی کوشش بھی ہوئی۔ پہلے اسے شادی کی تقریب کا نام دیاگیا۔ پھر کہاگیا کہ ہوائی فائرنگ تھی لیکن شواہد اور پھر وڈیو کے منظرعام پر آنے سے جھوٹ کا پول کھول گیا۔ معلوم ہوگیاکہ فائرنگ سیدھی تھی۔ یہ ہوائی فائرنگ نہیں تھی بلکہ مجرم اور اسکے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش تھی۔ میڈیا کا اور اس فرد کا شکریہ جنہوں نے یہ فوٹیج پیدا کی اور اسے پورے پاکستان تک پہنچا کر حقیقت عیاں کردی۔ سندھی صحافی معشوق اودھانو نے یہ بتا کر گویا جگر ہی چیر دیا کہ ثمینہ سموں کے ہاں بیٹے کی ولادت متوقع تھی۔ انہیں یہ معلوم تھا اور وہ بے حد خوش تھی۔ اس نے اپنی کمائی سے شوہر کے ساتھ مل کر اپنے ہونےوالے بیٹے کیلئے سونے کی انگوٹھی، کپڑے اور دیگر سامان تیار کررکھاتھا۔ قتل کرنیوالوں کو توقع نہیں تھی کہ ایسے کسی واقعہ پر وہ گرفت میں آجائینگے۔ شاید قاتلوں کو اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا جن بڑے بڑوں کو بوتل میں بند کردیتا ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ مقتولہ ثمینہ سندھو کے رشتہ دار غریب اور کمزور ہونے کی وجہ سے دباﺅ میں آجائینگے اور ان پر دباﺅ ڈال کر معاملہ رفع دفع کرا دیا جائیگا۔
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے واقعے کا نوٹس لیا اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی ہے۔ اب نجانے کون کون نوٹس لے گا۔ سوچتا ہوں کہ ثمینہ تو بھوک کے عذاب سے نجات پاگئی لیکن اس ’ام الخبائث‘ بھوک کا نوٹس لے کر اسکے خلاف کون کارروائی کریگا؟ کب یہ کارروائی ہوگی؟ یہ نوٹس کا ڈرامہ کب تھمے گا اور اس سے کب نجات ہوگی؟؟پاکستان کے عمومی مزاج میں گانے بجانے والے پہلے بھی کسی خاص عزت اور اہمیت کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ عمومی رویہ کے حوالے سے جو الفاظ عام مستعمل ہیں، وہ بیان بھی نہیں ہوسکتے نہ ہی ضبط تحریر میں آسکتے ہیں۔ لیکن صوبہ یا علاقہ کوئی بھی ہو فنکاروں اور ان میں بھی خواتین فنکاروں کو نشانہ بنانے کا چلن عام ہے۔ ایسے متعدد واقعات ہمارے سامنے آتے رہے ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے علاقے مردان میں پشتوفنکارہ سمبل کے گھر میں گھس کر اسے اس وجہ سے قتل کیاگیا کہ اس نے ساتھ جانے سے انکارکیاتھا۔ لوک فنکار اللہ دتہ لونے والے کے بیٹے کو پی پی پی کے رہنما سبطی شاہ نے تھپڑ مارے تھے۔ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے ہلاک کردیا۔ سٹیج فنکارہ قسمت بیگ، نیشا ملک، پشتو گلوکارہ شمیم ایمن، فنکارہ برکھنا، آرزو،مسرت شاہین اور نجانے کتنی اور فنکارائیں اور فنکار اس ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ منفرد کردار سلطان راہی کو 9جنوری 1996ءکو جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ کے نزدیک سمن آباد چونگی پر قتل کردیاگیاتھا۔ امجد صابری کو گولیوں سے بھون دیاگیا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...