گوادر تاریخ کے آئینے

Apr 13, 2018

گزشتہ دنوں گوادر کے حوالے سے ایک تحریر نظر سے گزری جس میں کچھ تاریخی حقائق غیر واضح تھے اور بعض واقعاتی ابہام بھی ہیں۔ مثلاً پاکستان کو گوادر 1956ءمیں نہیں۔ 1958ءمیں ملا تھا۔ اومان کبھی بھی برطانیہ کی کالونی نہیں رہا۔ محترمہ وقار النساءنون کی چرچل سے سفارش محل نظر ہے۔ چرچل دو مرتبہ برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔ اول 1940-45ءدوم، 1951-55ءجبکہ گوادر کا معاملہ 1958ءمیں طے پایا۔ جب ہیرلڈ میکملن برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔
گوادر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے یہ باتیں وثوق کے ساتھ اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ اس موضوع پر راقم کی ریسرچ موجود ہے جس کیلئے دیگر ذرائع کے علاوہ فارن آفس کے پرانے ریکارڈ سے بھی استفادہ کیا گیا تھا جو بعد میں آرٹیکل کی شکل میں ایک بین الاقوامی جریدہ میں بھی چھپا تھا۔ میں پہلے ہی ”آج کی کہانی“ بعنوان میر ہزار خان بجرانی میں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ مرحوم بھی اس مسئلہ میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور متعدد بار فارن آفس تشریف لائے۔ جہاں ہم نے اپنے نوٹس شیئر کئے اور راقم نے اپنی تحقیق کی ایک کاپی موصوف کو بھی دی تھی۔ لطف کی بات کہ گوادر کا الحاق ایک غلط العام موضوع ہے۔ راقم نے بیسیوں ایسے سیمینار اور مذاکرے سنے ہیں جن میں الحاق کا کریڈٹ ایوب خان کو دیا گیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے راقم کو CPEC پر ایک اعلیٰ سطحی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا مقررین خاصے باخبر اور پڑھے لکھے دکھائی دیتے تھے مگر وہاں بھی اس تاریخی مغالطہ کا ذکر تسلسل کےساتھ ہوتا رہا اور ہر کوئی سلطنت اومان سے گوادر کی خریداری کا کریڈٹ ایوب خان کو دے رہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کی خریداری اور پاکستان میں شمولیت کا ایوب خان سے کوئی تعلق نہیں یہ کارنامہ متحدہ پاکستان کے آخری وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے انجام دیا تھا اور جس کا اعلان موصوف نے بہ نفس نفیس ایوب خان کے مارشل لاءسے مہینہ بھر قبل 7 ستمبر1958ءکو ریڈیو پاکستان پر اپنے خصوصی خطاب میں کیا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے گوادر کا پس منظر جان لیجئے۔ تاریخی طور پر گوادر، بلوچستان کی ریاست قلات کا حصہ رہا ہے۔ 1784ءمیں اومان کے امیر سعید بن احمد کی اپنے بھائی سلطان بن احمد سے ان بن ہو گئی اور موخرالذکر جان بچانے کیلئے قلات کی جانب آ نکلا۔ جہاں والئی قلات میر محمد نصیرخان اول نے غریب الوطن شہزادے کی خوب آﺅ بھگت کی اور گزارے کیلئے مکران کے ساحل پر 2400 مربع میل پر مشتمل گوادر کا علاقہ سونپ دیا۔ سلطان بن احمد 13 برس تک گوادر میں پناہ گزین رہا۔ 1797ءمیں وطن لوٹا اور بھائی کو اقتدار سے الگ کر کے ریاست اومان کی قیادت سنبھال لی۔ تاہم گوادر کا علاقہ والئی قلات کو واپس کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھا۔جہاں کا نظام چلانے کیلئے گورنر اومان سے آتا تھا۔ پاکستان بنا تو اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ آزادی کے بعد بلوچستان کی ریاستوں خاران، مکران، لسبیلہ اور قلات نے پاکستان سے الحاق کر لیا، تو گوادر کے لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ تو آزاد ہونے سے رہ گئے، انکے حکمراں تو ابھی تک سمندر پار سے آ رہے ہیں۔
پنجاب کے معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملک فیروز خان نون برطانیہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وائسرائے کی کونسل کے رکن رہے اور 1945ءمیں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے۔ گوادر سے متعلق کاغذات ان کے نوٹس میں اسی زمانہ میں آئے تھے۔ آزادی کے بعد 1956ءمیں پاکستان کے وزیر خارجہ مقرر ہوئے تو گوادر فائل کا عمیق مطالعہ کیا۔ اگلے ہی برس وزیراعظم بن گئے تو بقول کسے ”ابھی یا کبھی نہیں“ NOW or NEver والا معاملہ تھا۔ اعلیٰ برطانوی قیادت کے ساتھ ذاتی مراسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موصوف نے معاملے کو فاسٹ ٹریک پر ڈال دیا۔ پاکستان کامن ویلتھ کا رکن تھا اور وزیراعظم نون برطانوی ہم منصب میکملن کے ساتھ ہائی کمشنری کے زمانے سے ہی خاصے بے تکلف تھے۔ چنانچہ انہیں اعتماد میں لے کر معاملے کو آگے بڑھایا۔ اومان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی، مگر 2400 مربع میل کا علاقہ طشتری میں رکھ کر پاکستان کو دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ سودے بازی کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے لاکھ اصرار کیا کہ جب گوادر خریدا ہی نہیں گیا تو واپسی کیلئے رقم کا مطالبہ چہ معنی دارد؟ الغرض چھ ماہ کے طوفانی مذاکرات کے بعد تین ملین ڈالر پر سودا ہوگیا۔ تکنیکی طور پر اس ڈیل کو تحفہ کا نام دیا گیا۔ یعنی اومان نے گوادر تحفتاً پاکستان کے سپرد کر دیا۔ مذکورہ رقم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سر آغا خان نے ادا کی تھی۔ گوادرکے حوالے سے سیاسی قیادت کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ابتدائی مذاکرات کے ساتھ ہی علاقے کے سروے کیلئے امریکی جیالوجیکل سروے کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیا اور اس کام کےلئے معروف زمانہ سرویئر رتھ کانڈرک کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد رپورٹ دی کہ ہتھوڑے سے مشابہ خاکنائے ایک جدید اور گہرے پانی کی بندرگاہ کیلئے آئیڈیل لوکیشن ہے۔ امریکی سروے ٹیم کی اس رپورٹ کا جائزہ جرمنی اور اٹلی کے ماہرین نے بھی لیا اور ایک صبر آزما سٹڈی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ گوادر کا پوٹینشل کراچی سمیت خطے کی تمام بندرگاہوں سے کہیں زیادہ ہے۔
گوادر کی واپسی کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر اپنی تقریر میں وزیراعظم فیروز خان نون نے کہا تھا: ”گوادر پاکستان کی خیر خواہی Good will اور تعاون کی پالیسی کا پہلا ثمر ہے۔ مجھے پختہ امید ہے اور اس کیلئے دعا گو بھی ہوں کہ ہم اپنے دیگر بین الاقوامی تنازعات بھی امن اور معقولیت کے ساتھ طے کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ، گوادر آبرومندانہ طریقے سے طے پانے والا شاید ابھی تک واحد کیس ہے جس سے پاکستان کے رقبے میں 2400 مربع میل کا اضافہ ہوا۔ کشمیر سمیت دیگر معاملات میں بدقسمتی سے پیش رفت نہیں ہو پائی اور کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان بھی گنوا بیٹھے۔

مزیدخبریں