جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے ذاتی تشہیر کی کچھ ایسی سیاسی شعبدہ بازیوں کا بھی نوٹس لیا جنہیں حکومتی سیاست دان اپنا حق سمجھتے تھے۔ حکمرانوں کی میڈیا کمپین سے یہ تاثر ملتا کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنا فرض ادا کرنے کی بجائے عوام پر احسان کررہے ہیں۔لیکن ایک اور چالاک سیاسی چال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اُس سرکاری منصوبے یا املاک کی منصوبہ بندی اور تکمیل میں کوئی کردار بھی ادا نہیں کیا ہوتا جس سرکاری املاک کو وہ اپنے سیاسی رہنمائوں کے ناموں کے ساتھ منسوب کرلیتی ہیں۔ اِسے تشہیر کی چائنہ کٹنگ یا کسی دوسرے کی اولاد کے باپ کے خانے میں اپنا نام لکھ دینا کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح سیاسی جماعتیں سرکاری خزانے کے سینے پر مونگ دل کر اپنی مستقل تشہیر کا بندوبست کرلیتی ہیں۔ مثلاً راولپنڈی جنرل ہسپتال کو لوگ جنرل ہسپتال یا سینٹرل ہسپتال کے نام سے جانتے تھے۔ جب لیاقت باغ راولپنڈی میں بینظیر بھٹو ایک خودکش حملے میں انتقال کرگئیں تو اُن کی ڈیڈ باڈی کو معائنے کے لئے اِسی ہسپتال میں لایا گیا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِاقتدار آئی تو انہوں نے راولپنڈی جنرل ہسپتال کا نام تبدیل کرکے بینظیر ہسپتال رکھ دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بینظیر بھٹو کی ڈیڈباڈی کو اس ہسپتال میں محض لانے کی وجہ سے ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کا کیا جواز تھا؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ تو اس ہسپتال کو بنایا اور نہ ہی بعد میں بھی کبھی اِسے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ کیا۔ پھر اس سرکاری ہسپتال کا نام بینظیر ہسپتال کیوں ہے؟ بینظیر بھٹو کی ڈیڈ باڈی لیاقت باغ سے مری روڈ کے ذریعے راولپنڈی جنرل ہسپتال لائی گئی۔ یہ سڑک قیام پاکستان سے لے کر 2008ء تک مری روڈ کہلاتی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مری روڈ کا نام تبدیل کرکے بینظیر روڈ رکھ دیا۔ کیا یہ مرکزی سڑک پیپلز پارٹی نے بنوائی تھی؟ کیا صرف بینظیر بھٹو کی ڈیڈ باڈی کی گاڑی کے اس سڑک پر سے گزرنے کے باعث مری روڈ کا نام بینظیرروڈ تبدیل کر دینا آئینی، منطقی اور اخلاقی طور پر درست ہے؟ جب لیاقت علی خان کو اِسی باغ میں شہید کیا گیا تو اُن کی ڈیڈ باڈی بھی اِسی روڈ سے گزر کر فوجی ہسپتال گئی تھی۔ اگر بینظیر بھٹو کے لئے یہ منطق درست تھی تو پہلا حق لیاقت علی خان کا تھا کہ مری روڈ کا نام اور اس فوجی ہسپتال کا نام لیاقت علی خان کے نام پر رکھا جاتا ۔ بینظیر بھٹو کی ڈیڈ باڈی کو تدفین کے لئے سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے چکلالہ ایئربیس سے اُن کے آبائی علاقے منتقل کیا گیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی دارالحکومت کے واحد سِول ایئرپورٹ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے تبدیل کردیا۔ اول تو بینظیر بھٹو کی ڈیڈ باڈی اِس ایئرپورٹ سے لے جائی نہیں گئی اور اگر لے جائی بھی جاتی تو کیا صرف ڈیڈ باڈی کو ایئرپورٹ سے لے جانے کو وجہ بناکر نام تبدیل کرنا درست ہوتا؟ 1912ء میں اُ س وقت کے سندھ کی ممتاز سادات فیملی کے سربراہ سید نواب شاہ نے ذاتی جائیداد سے دوسو ایکٹر زمین علاقے کے ریلوے سٹیشن کو دے دی۔ رفاہِ عامہ کے لئے اُن کے اِس قیمتی تحفے کی یادگار کے طور پر اُس وقت کے انگریز حکمرانوں نے اس جگہ کا نام نواب شاہ رکھ دیا۔ تقریباً 96 برس بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اِس ضلعے کا نام نواب شاہ سے تبدیل کرکے بینظیر آباد رکھ دیا ۔سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی نے نواب شاہ کو آباد کیا تھا یا پیپلز پارٹی کے جاگیردار سیاسی رہنمائوں نے بینظیر آباد کے لئے ذاتی اراضی فراہم کی تھے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو تاریخی شہر نواب شاہ کا نام تبدیل کرنے کا حق پیپلز پارٹی کو کس نے دیا؟ اگرپیپلزپارٹی کا فلسفہ ٹھیک ہے تو کیا سیالکوٹ کا نام اقبال آباد نہیں ہونا چاہئے؟ اسی طرح پیپلز پارٹی کی 2008ء کی حکومت نے اپنے اقتدار کے اختتام سے صرف تین دن پہلے اسلام آباد میں شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کا صرف ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس پر سارا عملی کام بعد میں آنے والی دوسری حکومتوں کے دورمیں ہوا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام انٹرنیشنل اور قومی فنڈ ہے اس فنڈ میں بے نظیر بھٹو یا بھٹو خاندان نے ایک ذاتی پیسہ بھی نہیںجمع کرایالیکن اسے بے نظیر سے جوڑدیا گیا۔کیا اس پروگرام کا نام پاکستان انکم سپورٹ پروگرام نہیں ہو نا چاہیے؟ اس طرح کی تشہیری چائنہ کٹنگ کی چھوٹی بڑی کئی مثالیں اور بھی ہیں۔ تاہم ایک اچھی مثال تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ہے جنہوں نے سیاست میں آنے اور خیبرپختونخوا کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد کوئی بڑا سرکاری و ذاتی پراجیکٹ اپنے نام سے منسوب نہیں کیا۔ یہاں تک کہ میانوالی میں عمران خان کے ذاتی تعلیمی پراجیکٹ نَمل کالج کو بھی اُن کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ شوکت خانم ہسپتال اُن کے سیاست میں آنے سے پہلے کا ذاتی منصوبہ تھا۔ اگر غور کیا جائے تو ہمارے ہاں موجودہ سب سیاسی شخصیات ایک دوسرے کے لئے متنازع ہیں۔ لہٰذا متنازع شخصیات کے نام پر سرکاری املاک اور اداروں کے نام رکھنا منطقی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو اصل تاریخی شخصیات ایسی سستی شہرت کی مرہونِ منت نہیں ہوتیں۔پاکستان کے ہزاروں فوجی، سولین، پولیس کے افسران اور جوانوںنے وطن عزیز پراپنی جانیں قربان کیں۔ کیا دھرتی ماں کے ان ہزاروںجان نثاروں کے نام سے ہزاروں سرکاری املاک وشہروں کے پرانے نام تبدیل کر دیئے گئے؟ نشانِ حیدر پانے والے کتنے شہداء کے ناموں پر قدیم مشہور شہروں کے نام تبدیل ہوئے؟ کیا معصوم پھول سیکنڈ لیفٹیننٹ ارسلان شہید کے نام پر بھی کسی مشہور شہر کا نام تبدیل ہوا؟ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ مدرستہ الاسلام کراچی سے حاصل کی۔ کیا اس سکول کا نام قائداعظم محمد علی جناح مدرستہ الاسلام رکھ دیاگیا؟ قائداعظم محمد علی جناح نے جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو کیا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا نام قائداعظم محمد علی جناح سٹیٹ بینک رکھ دیا گیا؟ سرکاری املاک، سڑکوں اور اداروں کے نام موجودہ سیاسی شخصیات کی بجائے تحریک پاکستان کے رہنمائوں، سائنسدانوں، دانشوروں، لکھاریوں، فنکاروں، سماجی کارکنوں، ماہر تعلیم، کھلاڑیوں یا شہروں وغیرہ کے ناموں پر ہونے چاہئیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں متنازع سیاست دانوں کی بجائے پاکستان کا نام روشن کرنے والی اصل تاریخی شخصیات سے واقف رہیں۔ کسی جگہ کا نام تبدیل کردینا اُس کا ماضی اور تاریخی پس منظر چھین لینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کی جگہ کو زبردستی اپنے نام منتقل کرلینا ایک جرم ہے۔ کیا پہلے سے موجود سرکاری املاک کو اپنے سیاسی ناموں سے منسوب کرنا بھی اِسی جرم کے زمرے میں نہیں آسکتا؟ چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب میاں ثاقب نثار صاحب سے اس بارے میں بھی نوٹس لینے کی درخواست ہے۔