معروف فلمساز ریاض شاہد نے فلم زرقا میں گانا شامل کیا تھا ”رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔“ اور اس کے بعد زنجیروں میں جکڑی زرقا کی آواز آتی ہے۔ ”اللہ“.... دو تین روز قبل ایک گلوکارہ ثمینہ سندھو کو ایک عیاش سندھی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ثمینہ سندھو کی کوکھ میں موجود آٹھ ماہ کا وہ بچہ بھی مار دیا گیا جسے ابھی اس دنیا میں آنا تھا یعنی عیاش سندھی نے دو جانیں قتل کر دیں۔ ثمینہ سندھو ایک ریٹائرڈ جج کے ریڈر کے بیٹوں کی کسی تقریب میں تھی اور وہ حاملہ ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر گا رہی تھی مگر شراب میں بدمست بیٹھے ہوئے عیاش مردوں کی نظروں کی تسکین نہیں ہو رہی تھی۔ ثمینہ سندھو کے سراپا کو وہ ننگی نظروں سے دیکھ نہیں پا رہے تھے اور محض خوبصورت آواز اور سُروں کے اتار چڑھاﺅ سے یا آرٹ سے ان کو کوئی غرض نہیں تھی۔ گانے کے دوران ثمینہ سندھو کو کہا گیا کہ کھڑے ہوکر گاﺅ ورنہ مرنے کیلئے تیار ہو جاﺅ اور پھر اسے مار دیا گیا اور خبر یہ چلنے لگی کہ ہوائی فائرنگ سے ایک گلوکارہ ہلاک ہو گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہوائی فائرنگ سے ان عیش پرستوں کے کسی بیٹے یا کسی مرد کو تو کچھ نہ ہوا اور پھر ہوائی فائرنگ ہوا میں آسمان کی طرف جانے کی بجائے کرسی پر یا فرش پر بیٹھی ہوئی گلوکارہ کے سینے اور پیٹ کو چھلنی کر گئی۔ ثمینہ سندھو راستے بھر تڑپ تڑپ کر ہسپتال پہنچتے ہی جاں بحق ہو گئی اور دریائے سندھ کے کناروں پر پرانی تہذیب آج کے اس بھیانک روشن خیال عہد پر قہقہے لگاتی رہی اور پھر یہ بھٹو شہید کا علاقہ ہے مگر جب بھٹو کی بیٹی کو بھرے مجمع میں لہو لہان کر دیا جاتا ہے تو ثمینہ سندھو کی کیا حیثیت تھی؟ اور بینظیر بھٹو جیسی عظمتوں والے خاندان کی وارث اور اس ملک کی پہلی وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی کے قاتلوں کو تلاش نہیں کیا جا سکا تو ثمینہ سندھو کے قاتلوں کو پکڑنا ناممکن ہے جبکہ خبر فوراً ہی توڑ مروڑ کر ہوائی فائرنگ میں بدلی جا چکی ہے۔ پتہ نہیں جسٹس ثاقب اس پر کوئی ایکشن لیں گے کہ نہیں‘ مگر اپنی دھرتی کا خطاب ”سندھو“ ساتھ لگانے والی ثمینہ کے لبوں سے آخری وقت ”اللہ“ کی ہوک ضرور نکلی ہوگی اور یہ آہ سندھ کے وڈیروں پر اور ظالموں پر پڑنے والی ہے۔ مجھے مردان کے علاقہ کی نوجوان فنکارہ سنبل یاد آگئی ہے جسے مردان کے علاقہ میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ سنبل بھی آٹھ سالہ بچی اور بوڑھے والدین کی کفیل تھی اور بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ سنبل کو کچھ لوگ بلیک میل کر رہے تھے۔ اس پشتو فنکارہ کے قاتلوں کو پکڑا گیا یا نہیں کچھ خبر نہیں ہے اور یہ خبر تو کسی کو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے غریب اہل خانہ اور اس کی آٹھ سالہ بیٹی اب کس حال میں ہوگی۔ مجھے طوطاکہانی سیریز کی ایک کہانی یاد آرہی ہے۔ وہ کہانی یوں تھی کہ ایک سنار‘ ترکھان‘ درزی اور اللہ کا عبادت گزار نیک بندہ چاروں سفر کے دوران ایک جنگل میں رات گزارنے ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ایک فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ایک ایک پہر نگرانی کرے گا۔ پہلے بڑھئی کی باری آئی تو اس نے نیند سے بچنے کیلئے ایک بڑی ٹہنی تراش خراش کر ایک حسین عورت کا بُت بنا دیا۔ درزی کی باری آئی تو اس نے خوبصورت لباس پہنا دیا۔ سنار کی باری آئی تو اس نے جگمگاتے زیورات سے اس کے سراپا کو سجا دیا اور جب اللہ کے نیک بندے کی باری آئی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس بُت میں جان ڈال دے اور اس طرح ایک جیتی جاگتی حسین عورت سامنے کھڑی ہو گئی اور فوراً ہی ہرکوئی اس پر دل و جان سے فدا ہو گیا اور لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر کار فیصلہ کیا گیا کہ جو شخص سب سے پہلے جنگل میں داخل ہوگا‘ اس سے منصفی کروا لیں گے۔ اتنے میں ایک مرد آیا اور آتے ہی اس عورت پر فدا ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ میری منکوحہ ہے۔ آپ لوگ اسے اغوا کرکے لائے ہیں۔ سارے لوگ کوتوال کے پاس پہنچے۔ تھانیدار کی نیت میں بھی زیورات اور عورت دیکھ کر فتور آگیا وہ بولا ”یہ تو میری بھابی ہے جسے تم زیورات اور مال و دولت سمیت اغوا کر کے لے گئے تھے۔ عورت تو مل گئی اب مال برآمد کرنا باقی ہے۔ یہاں سے لڑ جھگڑ کر سب قاضی کی عدالت میں پہنچے۔ قاضی صاحب بھی لٹو ہو گئے اور آخر کار سب بادشاہ کے دربار میں پہنچ گئے۔ بادشاہ کی نیت بھی خراب ہو گئی اور اس نے عورت کو دربار میں رکھ لیا۔ ان تمام لوگوں میں سے کس کے ساتھ کیا ہوا یہ معمہ تو حل نہیں ہو سکتا مگر اس معاشرے اور سماج میں عورت کے ساتھ یہ رویہ بدستور موجود ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور عورتیں اس قسم کے مظالم کے سامنے اس مرد معاشرے میں بے بس ہیں تو ایسے میں شاہنامہ فردوسی اور قدیم یونانی روایت کے مطابق خواتین کو ایمیزن خواتین بننا پڑے گا۔ یہ قوم بحیرہ خضر میں آباد تھی۔ ان خواتین کا قد لمبا اور جسم مضبوط ہوتا تھا اور ان کا دایاں میمری گلینڈ بچپن میں کاٹ دیا تھا تاکہ اپنی کمان کو رکھنے اور تیر کو چلانے میں آسانی ہو۔ عسکری صلاحیتوں والی یہ خواتین سائتھین قبیلوں کے مردوں سے عارضی شادیاں کرتی تھیں جو بچہ پیدا ہونے تک قائم رکھی جاتی تھی اور لڑکی پیدا ہوتی تو ایمزن خود رکھ لیتی تھیں اور بیٹا پیدا ہوتا تو مرد کے ساتھ بھیج دیا کرتی تھیں۔ انگلستان میں ہسپتالوں میں آج بھی کسی مشکل کام پر اس خاتون نرس کو مقرر کیا جاتا ہے جسے ایمیزنز میں سے ایک سمجھا جاتا ہو۔ میرا ایک شعر ہے
قربتوں کے اندر ہی سانس لیتا رہتا ہے
خاردار تاروں کا اک سماج لوگوں میں
اس خاردار تاروں کے سماج میں اگر طوطا کہانی کی طرح بڑھی¿، سنار، درزی اور اللہ والے سارے کے سارے لوگ آپس میں ملے ہوتے ہیں اور ثمینہ سندھو اور سنبل جیسی عورتیں یوں ہی مار دی جاتی ہیں اور واقعات تبدیل کر دیئے جاتے ہیں اور قاتلوں کو بچا لیا جاتا ہے تو پھر عورتوں کو اپنے میمری گلینڈ کٹوانے پڑ جائیں گے اور اپنی کوکھ خالی رکھنا پڑے گی یا پھر ان مردوں سے عارضی نکاح پڑھا کر ایمیزون بیٹیاں تیار کرنا پڑیں گی اور ایسے بیٹے ان مردوں کے منہ مارنے پڑیں گے جن کی تقریبات کے جشن میں دھرتی ماں کا ٹائٹل نام کے ساتھ لگانے والی ثمینہ سندھو جیسی عورتیں قتل کر دی جاتی ہیں۔ ملک میں یوں بھی سیاست کا کھیل اتنا تگڑا بنا دیا گیا ہے کہ معاشرے اور سماج کا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جسے ملک میں صرف سیاستدان، حکمران اور وڈیرے اور ان کے خاندان کے مسائل ہیں اور عوام بے حقیقت اور بے حیثیت ہیں‘ لیکن یہ سچ ہے کہ غربت کی زنجیر پہن کر رقص کرتی اور گاتی گنگناتی ہوئی ان عورتوں کو صرف اس بات پر مار دینا کہ وہ بیٹھ کر ان کی عریاں نظروں کے سامنے محض آواز کے اتار چڑھاو¿ کو کیوں پیش کر رہی ہیں اور شاید یہ بات ان کی عیاشی اور مردانگی دونوں کے خلاف تھی لہٰذا انہیں مار دیا جائے تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ ان عورتوں کی کرب و درد سے ڈوبی آخری ”آہ“ اس ملک و قوم پر عذاب بن کر یا قہر بن کر نازل ہو سکتی ہے۔!!!