کشمیر میں ایک بار پھر ”ظلم و دہشت“ کی آگ لگ گئی ہے۔ جنت ”نظیر وادی“ کی سڑکیں پھر بے گناہوں کی لاشوں سے بھرگئی ہیں۔ ماﺅں اور بہنوں کی ”آہ و فغان“ آسمان کا” کلیجہ چیر “رہی ہیں۔ ایک قیامت کا سا سماں ہے، مگر آفرین ہے بین الاقوامی برادری پر کہ کشمیر سے اٹھی کسی ”پکار“ پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ ایک دو دن کی بات نہیں ”کامل ستر “برس ہوئے ہیں۔ ستر سال کہنے کو دو لفظ ہیں، مگر جب ظلم و ستم کی سیاہ رات ہوتو یہ عرصہ قیامت کا لگتا ہے ۔ کشمیر کا تصور آتے ہی روتی پیٹتی، بین کرتی اور اپنے جوان بیٹوں کی خون خون لاشوں پر جھکی” ماﺅں بہنوں“ کی تصویریں ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں۔ کشمیری عوام 1988 سے مسلح جدوجہدکر رہے ہیں لیکن عالمی برادری ان کی قربانیوں پر توجہ ہی نہیں دے رہی ۔جبکہ بھارت کی” بربریت “بڑھتی جا رہی ہے ،بھارتی قابض فوج آئے روز کشمیریوں پہ ظلم ڈھا رہی ہے لیکن اقوام متحدہ کہتی ہے کہ بھارت اس کی ”ثالثی “تسلیم نہیں کر رہا اگر ایسی بات ہے تو پھر اقوام متحدہ کی ”ساکھ “پہ بڑا” سوالیہ“ نشان ہے ، بھارتی فوج کا جبرو تشدد تحریک کے ساتھ” عوامی وابستگی“ کو کبھی کم نہیں کر سکتا۔مسلح جدوجہد کے تباہ کن اثرات کے مشاہدہ کے بعد کشمیری عوام نے ایک بار پھر پرامن احتجاج پر توجہ دی۔چنانچہ حالیہ سالوں میں منظم طریقہ سے طویل اور ریکارڈ احتجاج کئے گئے۔لیکن بھارت نے پر امن شہریوں پر گولیاں چلا کر ان کا قتل عام کیا ۔ 2008 میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین کی الاٹمنٹ کے خلاف دو ماہ تک احتجاج کا سلسلسہ جاری رہا۔ اسی طرح 2010 میں چار ماہ تک پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے احتجاج ہمارے ہاں ہونے والے احتجاج سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ جب احتجاج کی کال موصول ہوئی تو پھر شہر ہوں یا قصبے، کاروبار اور ٹریفک کا نظام منجمند ہو جاتا ہے۔ 2010 کے چار مہینوں کے مسلسل احتجاج کی ناکامی کے بعد عوام اپنے مستقبل سے ”کافی مایوس“ دکھائی دیے تھے۔ انہیں کوئی ”راستہ “دکھائی نہیں دے رہا کہ کس طرح وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں، جبکہ بھارتی جمہوریہ بدستور عوامی آواز کو دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔اب ایک بار پھر بھارت ماضی کی طرح کشمیریوں کے جذبہ حریت کو بزور بازو کچلنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے یقینی طور پر اسے اس بار بھی منہ کی کھانی پڑے گی ۔مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے بارے میں” خدشات“ بہت زیادہ ہیں۔ اکثریت یوں سمجھتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تباہی ان کے اپنے گھر کی تباہی ہے۔ اس برعکس بعض لوگ وہ ہیں جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے منسلک ہیں اور انڈیا نوازی پر مجبور ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات کو اپنے راہ راست پر ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے بارے میں ان خدشات میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستانی میڈیا بے حد آزاد ہے اور حکومت کی ہر خامی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستانی میڈیا اپنی حکومت پر تنقید کم اور پڑوسی ریاستوں پر زیادہ تنقید کرتا ہے۔ اس لئے انڈیا کے اندر بدامنی اور زبوں حالی کی” داستانین “دب جاتی ہیں اور پاکستان سے منسلک داستانیں عمداً زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں۔ہندوستان تسلسل کے ساتھ اس بات کا پرچار کیے جا رہا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ رہنا ہی کشمیریوں کے مفاد میں ہے۔ چنانچہ شروع سے اس بات کا پرچار کیا جا رہا ہے کے ہندوستان ایک مثالی جمہوریت اور پاکستان جمہوریت کا” مقتل “ہے۔ حالانکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی مرضی کی حکومت ہے تو پھر کشمیر کو ایک پل ہندوستان کے ساتھ نہیں گزرانا چاہئے۔ اس کے علاوہ بہت ساری دیگر ریاستوں میں ہندوستان عوامی آواز کو طاقت کے بل بوتے پر دبا کر پھر بھی حقیقی جمہوریت کا لیبل چڑھائے ہوئے ہے۔ان سب حالات کے باوجود بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اب بھی آزادی کی خاطر جدوجہد کے لئے تن من دھن قربان کئے جا رہے ہیں۔ کشمیر کا کیس پاکستان کے علاوہ کوئی نہیں اٹھاسکتا۔ ہم کو فی الفور چین اور دیگر دوست ممالک کے تعاون سے عالمی برادری کو متوجہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے جس حد تک ممکن ہے ہمدرد ممالک کے ذریعہ ایک” بین الاقوامی لابنگ “کرناہوگی۔ اگر ہم کشمیر کو فوری طور پر بھارت کے پنجے سے چھڑا نہیں سکتے تو کم از کم مظالم بند کروانے میں ہی اپنا کردار ادا کریں۔ بھارت اپنی شدت پسندی اور انتہاپسندی کی وجہ سے عالمی دنیا میں ازحد” بدنام“ ہوچکا ہے۔ بہت سارے بین الاقوامی ادارے بھارت میں پڑھتے ہوئے تشدد اور انتہاپسندانہ رجحانات پر شدید تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔ یہ بہت مناسب وقت ہے کہ اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے اور کشمیریوں کی دادرسی کی جائے۔
”شام میں انسانیت کا قتل عام “ شام کے خونریز تنازعے کے آغاز کے چھ سال بعد حکومت کو ” جنگی محاذوں“ پر کچھ کامیابی تو ملی لیکن جنگ ابھی بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے کے علاوہ اس ملک کو” کھنڈر “بنا چکی ہے۔چھ سالہ خانہ جنگی کے بعد آج کا شام ایسا دکھائی دیتا ہے۔2016ءشامی بچوں کیلئے ’تباہ کن‘ رہاہے۔دمشق میں دو بڑے بم حملوں میں کم از کم چھیالیس ہلاکتیںہوئیں لیکن اس بار غوطہ میں انسانیت سوز واقعات نے ہر ذی شعور نے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔انسانی حوالے سے شامی خانہ جنگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ تنازعہ اب تک لاکھوں انسانوں کی جانیں لے چکا ہے، کئی ملین شہری اندرون ملک مہاجر بن چکے ہیں اور مجموعی طور پر کئی ملین دیگر شامی باشندے خطے کی متعدد ہمسایہ ریاستوں سے لے کر مختلف یورپی ممالک تک میں پناہ لے چکے ہیں اور انسانی ہلاکتوں، مصائب اور مہاجرت کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔اب امریکہ نے بھی اس جنگ میں کھسنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد مزید قتل عام ہو گا ۔ عالمی برادری قتل عام روکنے میں کردار ادا کرے ۔
”سزا یا ہماری غفلت “
Apr 13, 2018