کنٹونمنٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹیوں کی ذمہ داریاں اور فرائض تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ میونسپل کمیٹیوں کے مقابلے میں کنٹونمنٹ بورڈکی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ صفائی ستھرائی کا انتظام نسبتاً اچھا ہوتا ہے۔ دوسری شہری سہولتیں بھی کنٹونمنٹ بورڈکے رہنے والوں کو زیادہ میسر ہوتی ہیں۔ لیکن بہاول پو رکا کنٹونمنٹ بورڈانوکھا ہے کہ وہ اپنے بنیادی فرائض کو انجام دینا ضروری نہیں سمجھتا۔ کنٹونمنٹ اپنے علاقے خود ڈیولپ کرتے ہیں۔ سڑکیں بناتے ہیں، سیوریج ،و اٹر سپلائی اور فراہمی بجلی کا انتظام کرتے ہیں۔ بہاول پور کنٹونمنٹ بورڈ خوش قسمت ہے کہ اسے ہر چیز بنی بنائی مل گئی۔ صرف ایک آرڈیننس کے ذریعہ ایک پہلے سے آباد علاقے کو (جو شہر کا سب سے خوبصورت رہائشی علاقہ تھا۔) کنٹونمنٹ میں شامل کر لیا گیا۔
ماڈل ٹاؤن اے کے رہائش کنندگان کنٹونمنٹ بورڈکے عمل دخل سے خوش تھے۔ انہیں اُمید تھی کہ کنٹونمنٹ بورڈ اپنی روایتی حُسنِ کارکردگی کا مظاہرہ یہاں بھی کرے گا اور وہ سہولتیں جو امپروومنٹ ٹرسٹ اور بلدیہ یہاں کے لوگوں کو فراہم نہ کرسکی اس کا خاطر خواہ انتظام ہو جائے گالیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن اے کے باشندوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور ماڈل ٹاؤن اے کا علاقہ فراموش کردہ علاقے کی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ یہاںکے رہنے والے بورڈ کے مقرر کردہ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں جو شہری ٹیکسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بھی ہیں۔ جہاں تک صفائی ستھرائی کا تعلق ہے وہ تو بعض مخصوص سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔ تاہم دیگر سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے قیام کو ۴۸ سال ہونے کو ہیں اب تک ماڈل ٹاؤن اے میں کوئی نئی سڑک تعمیر نہیں ہوئی۔ کئی کئی برس گزرنے کے بعد جب سڑکوں پر چلنا مشکل ہو جاتاہے تو بجری کا چھڑکاؤ کر دیا جاتا ہے جو چند ہفتوں میں پھر اُکھڑ جاتا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن اے کی کوئی سڑک صحیح سالم نہیں۔ جس کی وجہ سے کسی بھی سڑک سے بغیر گرے پڑے گزرنا محال ہے۔ یہی نہیں سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے آئے دن ایکسیڈنٹ بھی ہوتے ہیں۔ شہر کے تمام بڑے اسکول ماڈل ٹاؤن اے میں ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بہت بڑھ گیاہے سارا دن بسیں اور ویگنیں دوڑتی ہیں اور اُن کے شورشرابے کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کا سکون برباد ہوگیا ہے ابھی لوگ اس بے ہنگم ٹریفک اور گاڑیوں کے شور شرابے سے پریشان تھے کہ کنٹونمنٹ بورڈ نے یہاں کے مکینوں کے ساتھ ایک ظلم یہ کیا ہے کہ اس خوبصورت رہائشی علاقے کو کمرشل بنا دیا ہے۔ چنانچہ ہر طرف پلازے تعمیر ہو رہے ہیں اور مارکیٹیں بن رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے کنٹونمنٹ بورڈ کی آمدنی میں تو لاکھوں کروڑوں کا اضافہ ہو گیا ہے لیکن ماڈل ٹاؤن اے کے رہائشی عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔ دن دہاڑے چوری کی وارداتیں معمول بن گئی ہیں۔ نیز ٹریفک کے شور کی وجہ سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگے ہیں۔
کسی بھی معزز معاشرے میں رہائشی علاقوں میں پلازے اور مارکیٹیں اس بے ہنگم طریقے سے نہیں بنائی جاتیں بلکہ ٹاؤن پلاننگ کے تحت کمرشل تعمیرات کے لیے علیحدہ جگہ مخصوص کی جاتی ہے اور ماڈل ٹاؤن اے کی ٹاؤن پلاننگ کرتے وقت اس بات کا خیا ل رکھاگیا تھالیکن افسو سناک امر یہ ہے کہ کینٹونمنٹ بورڈ نے تمام اصول بالائے طاق رکھتے ہوئے ماڈل ٹاؤن اے کو سونے کی چڑیا سمجھ لیا ہے کہ بس جسقدر کما سکتے ہو کمالو ۔ بعض دفعہ تو یہ گمان ہوتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن اے کے مکین مفتوحہ ہیں اور کینٹ ان سے فاتح کی طرح سلوک کرتا ہے۔یہاں کے مکین انتہائی شریف النفس ہیں وہ کسی احتجاج کرنے کی بجائے اپنے گھر بیچ بیچ کر دوسرے علاقوں میں شفٹ ہورہے ہیں لگتا ہے کہ اگر پلازے بنانے کی منظوریوں کی یہ رفتا ررہی تو کچھ عرصے میں ماڈل ٹاؤن اے بازا ربن جائے گا اور یہ علاقہ رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔
ہم سمجھتے تھے کہ انتخابات کے بعد جب عوامی نمائندگان کا کنٹونمنٹ بورڈ کے معاملات میں عمل دخل ہوگا تو شاید کچھ بہتری آئے اور ماڈل ٹاؤن اے کے رہائشیوں کو کچھ سہولتیں میسسر آجائیں لیکن یہ خواب بھی چکنا چور ہو گیا کہ عوامی نمائندگان بھی ماڈل ٹاؤن اے کے لیے کچھ نہ کرسکے۔
ہم اسٹیشن کمانڈر صاحب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کبھی ماتحت عملہ کو لیے بغیر خود ماڈل ٹاؤن اے کا دورہ کریں اور کم ازکم جتنی اہم سڑکیں ہیں وہاں سے ضرور گزریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ انہیں سب اچھا کی رپورٹ دینے والے کس حد تک سچے ہیں۔ نیز کبھی یہاں کے مکینوں کو ملاقات کا شرف بھی بخشیں اور ان کے مسائل معلوم کرنے کی کوشش کریں جو اُن کا فرض منصبی بھی ہے۔