بھارت: مقبوضہ کشمیر میں ننھی 8سالہ آصفہ کیساتھ زیادتی اور قتل مذہبی رنگ اختیار کرگیا، بی جے پی رکن اسمبلی کو حراست میں لے لیا گیا

سری نگر:مقبوضہ کشمیر میں جنوری کے ماہ میں جانوروں کو چرانے کیلئے جنگلوں میں گئی 8 سالہ بچی کو اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنا یا گیا تھا جس کے بعد اس کی تشدد زدہ لاش ایک ہفتے بعد جنگل سے ملی تھی۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 8 سالہ بچی کے ریپ کی خبروں نے ملک بھر میں احتجاج کی ایک لہر پیدا کردی تھی جس میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندو گروہ کے ہزاروں ارکان نے مندر میں لڑکی کو مسلسل ریپ کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے والے 6 ملزمان کی رہائی کا مطالبہ کیا، جبکہ کئی ہندو وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا کہ ملزمان، جن میں 2 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، بے گناہ ہیں۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کاٹھوا کے مقام پر لڑکی پر حملہ کیا گیا تھا۔پولیس کا کہنا تھا کہ حملے کی منصوبہ بندی کئی مہینوں سے کی جارہی تھی تاکہ وہاں برسوں سے مقیم مسلمان برادری بھکر وال کو خوفزدہ کیا جاسکے اور انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ مقامی گروہ نے بچی کو اغوا کرکے بھکروال کو بھگانے کے لیے بنایا تھا لیکن ایک بار جب انہوں نے آصفہ کو اغوا کیا تو وہ اپنا منصوبہ ہی بھول گئے تھے۔فارنزک رپورٹس کے مطابق بچی کو نشہ آور چیزیں کھلائی گئیں، بار بار ریپ کا نشانہ بنایا گیا، جلایا گیا، پتھر سے مارا گیا اور گلا دبایا گیا تھا جس کے بعد اس کی لاش کو جنگل میں پھینک دیا گیا تھا جہاں وہ ایک ہفتے کے بعد ملی تھی۔ملزمان کو حراست میں لیے جانے کے فوری بعد ہندو اکتا منچ اور ہندو اتحاد پلیٹ فارم نے بھارتی جھنڈے لیے مظاہرے کا آغاز کیا تھا اور پولیس سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ان گروہوں کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلقات ہیں اور بی جے پی کے قانون سازوں نے عوامی سطح پر ملزمان کا دفاع بھی کیا ہے۔کاٹھوا میں ہندو قانون سازوں نے پولیس کا مقامی عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے کے وقت ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تحقیقات غلط ہیں اور حملے میں ملزمان کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پھنسایا جارہا ہے۔پولیس کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ جج کے گھر پہنچانے سے قبل اضافے دستے طلب کرنے پڑ گئے تھے۔دو پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد پر آصفہ پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے جن میں سے ایک مبینہ طور پر آصفہ کی لاش کی تلاش میں بھی ملوث تھا جبکہ دیگر دو کو شواہد مٹاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔اس کیس پر ملک بھر سے رد عمل سامنے آرہا ہے۔زیادہ تر بی جے پی کے حامی ارکان جنسی ہراساں کرنے سے متعلق مذہب کی بنا پر اپنا موقف تبدیل کر رہے ہیں، پولیس کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ آصفہ کا ریپ اور قتل مسلمانوں کو علاقے سے نکالنے کیلئے کیا گیا تھا ،تاہم مقامی وکلا اور بی جے پی کے حامیوں کیلئے ہندو ملزمان اور مسلمان متاثرین اس کیس میں آڑے آرہے ہیں۔بچی کے ریپ اور قتل کے واقعے نے علاقے میں کئی ہندو شہریوں کو بھی پریشان کیا ہے۔جموں میں مقیم ایک ریٹائرڈ استاد گردھاری لال کا کہنا تھا کہ سیاست ایک جانب یہ ایک انتہائی ناگزیر بات ہے کہ عوام اس گھنانے جرم کو مذہب کا چشمہ پہن کر دیکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم گراوٹ کی ایک نئی سطح پر آگئے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ اس سے زیادہ ہم کتنا گر سکتے ہیں۔

بھارت؛لڑکی کیساتھ زیادتی ،ملزم بی جے پی رکن اسمبلی زیر حراست
 اجتماعی زیادتی کے ملزم رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کو سی بی آئی نے لکھنو کے اندرانگر میں واقع مکان سے صبح 5بجے گرفتار کرلیا گیا ہے۔سی بی آئی کی جانب سے 3کیس درج کئے جانے کے بعد تحقیقات شروع کردی گئی ۔رکن اسمبلی کیخلاف زیادتی کے الزام میں رکن اسمبلی کے بھائی اتل سنگھ کو متاثرہ لڑکی کے والد کےساتھ مار پیٹ اور جیل میں انکی موت کا معاملہ شامل ہے۔ سی بی آئی ایس پی راگھ ویندر نے وتس نے یوپی پولیس سے متعلق کاغذات لے لئے ہیں۔جمعہ کو چیف سیکریٹری داخلہ اروند کمار اور ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ کا کہنا تھا کہ معاملے کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کردی گئی ہے۔ ایس آئی ٹی اپنے طور پر تحقیقات کریگی۔زیادتی کا شکار لڑکی کی بہن نے کہاکہ ودھایک(رکن اسمبلی) کی گرفتاری سے خوشی ہوئی ۔ ہمارامطالبہ تھا کہ سی بی آئی اس معاملے میں تحقیقات کرے ۔ ملزم کیخلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے پھانسی کی سزا دی جائے۔

ای پیپر دی نیشن