پشاور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں کے بھاری بستوں کا وزن کم کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان بستوں کی وجہ سے بچوں کی نشو ونما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے بھاری بستے کسی سرطان سے کم نہیں اور یہ سرطان تب سے ہے جب سے تعلیم کو تجارت بنا لیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ سرکار کا محکمہ تعلیم بھی ملوث ہے جسے نظام تعلیم کی کوئی شد بد نہیں، نہ وہ بچوں کی نفسیات اور جسمانی یا ذہنی گروتھ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اس دہشت گردانہ رویئے کی وجہ سے بچوں کی ڈاڑھی مونچھیں آٹھویں نویں جماعت میں ہی اگ جاتی ہیں اور وہ گٹھنے رہ جاتے ہیں۔ ایک بار شیخ سعدی نے کسی گدھے پر کتابوں کا بھاری بوجھ دیکھا تو بے ساختہ کہا کہ گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ اسکالر نہیں بن سکتا مگر ایک سکول کے قریب سے کوئی کمہار گزر رہا تھا کہ اس نے استاد کو بچوں پر برستے سنا، استاد صاحب فرما رہے تھے کہ تم گدھے تھے، میںنے تمہیں انسان بنا دیا۔ کمہار نے ماسٹر جی سے التجا کی کہ اس کے ایک گدھے کو بھی انسان بنا دے، استاد دل میں ہنسا مگر اس نے کہا کہ ٹھیک ہے اس عمل میں کوئی چھ ماہ لگیں گے۔ کمہار 6 ماہ بعد استاد جی کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اس کے گدھے کا کیا ہوا، استاد جی نے کہا کہ اسے کچھ زیادہ ہی پڑھا دیا اور اب وہ جونپور میں قاضی کے منصب پر فائز ہے۔ وہاں جا کر اسے قابو کر لو۔ کمہار جونپور کے قاضی کی عدالت میں پہنچا۔ پہلے اس نے سوچا کہ کہ قاضی صاحب اپنے مالک کو خود بخود پہچان لیں گے۔ مگر قاضی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے تو اس نے تھوڑا سا گھاس ہاتھوں میں پکڑا اور قاضی کو لگا دکھانے۔ قاضی نے اس کی عجیب سی حرکتیں دیکھیں تو غصے میں آئے اور اس سے ساری تفصیل پوچھی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ کمہار نے کہا اب آپ قاضی بن گئے ہیں اور اپنے مالک کو پہچانتے ہی نہیں، اس پر قاضی صاحب نے مزید جرح کی تو انہیں سارے پس منظر کا پتہ چلا۔ شیخ سعدی نے یہ تو نہیں بتایا کہ قاضی صاحب کے ہاتھوں استاد جی کی کیا درگت بنی مگر یہ کہانی نسل در نسل سننے کو مل رہی ہے اور آج بھی استاد صاحبان اپنے شاگروں کو گدھا، الو کا پٹھا اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ ویسے ان استادوںنے اپنے شاگردوں کو سچ مچ کا گدھا تصور کر لیا ہے۔ پرانے زمانے کے استاد نے تو کہا تھا کہ انہوں نے گدھوں کو انسان بنا دیا ہے مگر آج کے استاد اپنے شاگردوں کو الٹا گدھا سمجھ رہے ہیں اور اس کے کندھوں پر اتنا بھاری بستہ لاد دیا ہے کہ گدھے پر بھی اتنی کتابیں لادی جائیں تو اس کی کمر بھی دوہری ہو جائے۔ آج کے بچے گھر آتے ہیں تو کندھوں، ٹانگوں اور کمر کے درد کی شکائت کرتے ہیں۔ بے چاری مائیں انہیں زیتون کے تیل کی مالش کرتی ہیں۔ پیناڈول شربت پلاتی ہیں۔ اور یہ تماشہ شب و روز جاری رہتا ہے۔ اسلئے کہ بستے کا بوجھ تو کم ہونے میں نہیں آتا۔ اس بستے کے ساتھ طالب علموں کو تین چار منزلہ سیڑھیاں چڑھنی اور اترنی پڑتی ہیں اور گاڑی تک آنے جانے میں وہ ہلکان ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں پھر بھی یہی بچے ننانوے فیصد نمبر کیسے لے جاتے ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے تو اتنے نمبر لینا آسان کام نہیں تھا بلکہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آفرین ہے ان بچوں پر کہ گدھوں جیسا وزن بھی اٹھاتے ہیں اور پھر بھی ان کے ذہن میں رٹے لگانے کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ بستہ اس قدر بھاری کیوں ہے۔ اس راز کو سمجھنے کے لئے اردو بازار کی وسعتوں پر نظر ڈال لی جائے۔ ہر دکان دار کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی کتابیں ہر قیمت پر محکمہ تعلیم منظور کرے۔، نہ کرے تو ان دکانداروں کے منظور نظر ہیڈ ماسٹر ضرور منظور کریں۔ اس کاروبار میں دونوں فریقوں کا بھلا ہوتا ہے۔ ایک نوجوان جو میری شائع کردہ ادبی کتابیں بیچا کرتا تھا۔ آج کروڑ پتی بن گیا ہے اور وہ بورڈ سے کتابیں چھاپنے کی منظوری کے لئے ستر ستر ٹیوٹا گاڑیوں کی چابیاں محکمہ تعلیم کے حوالے کرتا ہے۔ اب اسے بازار میں سیٹھ صاحب کہا جاتا ہے اور اردو بازار کا ہر تاجر سیٹھ صاحب ہے۔ ہمارے وزرائے تعلیم کو برادرم اجمل نیازی زیرتعلیم کے نام سے پکارتے ہیں۔ انہیں تعلیم کی کیا شد بد ہو سکتی ہے۔ اور یہ جو نصاب مرتب کرتے ہیں اور ٹیکسٹ بورڈ میں جو ماہرین بیٹھتے ہیں، ان کے مبلغ علم کا کبھی جائزہ لیا جائے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ میں ایک بار جاپان گیا تو میںنے ایک پرائمری سکول کے اندر جھانکا۔ پھول جیسے بچے کھیل کود میںمصروف تھے،۔ نہ ان کے پاس کوئی بستے تھے۔ نہ کمر اور کندھوں پر کوئی بوجھ اور نہ ان کی مائیں رات بھر ان کے پائوں یا ٹانگیں دابتی ہیں یا زیتون کے تیل کی مالش کرتی ہیں۔ یہ سکول جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے ایک پوش علاقے میں واقع تھا۔ ایک بار امریکہ جاناہوا تو امریکہ کے 31 ویں صدر ہر برٹ ہوور کی ریاست آئیوا کے چھوٹے سے گائوں ویسٹ برانچ میں جانے کا موقع ملا۔ اسی گائوں میں اس کا سادہ سا مقبرہ بھی ہے۔ ہمارے وفد کو ایک پرائمری سکول میں لے جایا گیا ، میںنے بچوں کی چھوٹی
چھوٹی کرسیوں پر بیٹھ کر ان کی ٹیچر کا لیکچر سنا۔ ان بچوں کی میز پر کتابوں کا کوئی ڈھیر نہیں تھا۔ مجھے آئیوا سکول آف جرنلزم میں جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ یہاں بھی کلاس میں طالب علموں کے ڈیسک پر کتابوں کا ڈھیر نہیں تھا۔ پروفیسر کا زیادہ زور بحث مباحثے پر تھا جس میں مجھے بھی حصہ لینے کا موقع ملا۔ وہ لوگ طالب علم کے جسم یا ذہن پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتے بلکہ اسے کشادہ کرتے ہیں اور آزادانہ طور پر پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ میں دور دیسوں کی بات کیوں کروں۔ اپنے دیس کی بات کیوں نہ کروں۔ ہمارا سکول گائوں سے ساڑھے چار میل کے فاصلے پر تھا۔ ہمارے بستے میں ایک سلیٹ، ایک تختی اور اردو اور حساب کی ایک ایک کتاب ہوتی تھی۔ میٹرک تک ہمارا نصاب اسی طرح مختصر رہا۔ آج چھٹی سے دسویں تک بچوں کے بستے میں اتنی کتابیں ہیں جیسے انہیں پی ایچ ڈی کروائی جا رہی ہو۔ سات آٹھ سبجیکٹ کی کتابیں اور ان کے ساتھ اتنی ہی کاپیاں۔ پریکٹیکل کے لئے الگ نوٹ بکس اور اردو اور انگلش کی گرامر کی کتابیں الگ۔ انہیں گنتے گنتے میرے قلم کا سر چکرا گیا ہے۔ اب میں ایک نظر نہم کی اردو کتاب پر ڈالتا ہوں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ فاضل مرتبیں نے ماضی کے ادیبوں کا تعارف کراتے ہوئے کیسا کیسا جتن کیا ہے۔ شبلی کے تعارف میں لکھا ہے کہ ان کے طرز اظہار میں ادبیت کی شان موجود ہے۔ جوش بیان،۔ ایجاز و اختصار، روانی اور برجستگی، محققانہ انداز۔، غنائیت اور شعریت ان کے اسلوب بیان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ حالی کی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، بے جا اختصار اور بے جا طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے عبارت کو دلکش، سادہ اور مدلل بنانے میں حالی اپنی مثال آپ ہیں۔ سر سید کا اسلوب نگارش سادہ، سہل، بے ساختہ اور تصنع سے پاک ہے۔ مولانا آزاد اردو کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ وہ اپنے اسلوب بیان کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی، ان کا تمثیلی اسلوب انہیں اپنے عہد کے ادیبوں اور نثر نگاروں میںمنفرد بناتا ہے۔ تخیل آفرینی، پیکر تراشی، تجسیم نگاری، شعریت اور رنگینی، وقائع نگاری، نفسیاتی حقیقت آرائی اور مبالغہ آرائی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ جو کچھ میںنے نقل کیا ہے۔ اسے آپ کسی بھی نثر نگار پر منطبق کر سکتے ہیں۔ دوسرے میں ان اساتذہ کا دیدار کرنا چاہتا ہوں جو اس تعارف کی تشریح کے قابل ہیں۔ میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے ماہرین سے ان کا مطلب پوچھنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح مجھے ان ممتحین کی شکل دیکھنے کی بھی شدید خواہش ہے جو ان طلبہ کے پرچے چیک کرنے پر مامور ہیں۔
خدارا تعلیم کے نام پر مذاق مت کیجئے۔ تعلیم کو تجارت مت بنایئے اور بچوں کی ذہنی عمر اور فہم کو پیش نظر رکھئے۔ ورنہ واقعی آپ اچھے بھلے انسان کے بچوں کو الو کے پٹھے اور گدھے بنا رہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے اس بھونڈے مذاق کا نوٹس لیا ہے۔ ہر صوبے کی ہائی کورٹ تعلیم کے نام پر جہالت کو عام کرنے کے سامنے بند باندھے۔
بچوں کے بھاری بھر کم بستے‘ پشاور ہائی کورٹ کا نوٹس‘ باقی عدالتیں بھی نوٹس لیں
Apr 13, 2019