محب وطن عوام کے ڈوبتے دلوں کو ان کی آواز کے علاوہ کوئی ڈھارس دینے والا نہ تھا نہ آج امید کی کرن نظر آتی ہے ۔یاد رہے کہ قائد ملت کی جانب سے ملے مجاہد پاکستان کا خطاب کو اگر کسی نے عملی صورت اور اعلیٰ کردار و معیار کا نمونہ بنا کر پیش کیا تو وہ نام صرف مجید نظامی ہی نظر آتا ہے ۔مجید نظامی کی تمام زندگی صحافت میں ریاضت کا اعلیٰ معیار اور مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔
مجاہد پاکستان کا کردار دفاع وطن اصلاح قوم تک ہی محدود نہیں آپ کا دل جمال الدین افغانی،حسن بناہ اور اقبال کی طرح ملت و امت کے غم میں بے چین رہتا ۔افغانستان میں روسی جارحیت ہویا امریکی مداخلت مجید نظامی کوہسار باقی افغان باقی کا فلسفہ دے کر میدان عمل میں نظر آتے ۔فلسطین و کشمیر آپ کی زندگی میں اٹوٹ انگ کی حیثیت رکھتا تھا۔ نوائے وقت کی پیشانی پر سرخیاں دشمن پر آگ برساتی تھیں۔ مجید نظامی بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی دستگیری بھی کرتے تو بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ دلت قوم کی حالت زار پر افسردہ نظر آتے تھے ۔ ان کا دل امت مسلمہ کے لئے دھڑکتا تھا ۔ تین بارڈاکٹروں نے اس دل سے دکھ و غم عملا نکالے ۔ مظلوموں کی دعائیں اور حاجت مندوں کی صدائیں تھیں جن کے باعث آخری دم تک مجاہدانہ کردار کے حامل رہے کیونکہ عمر کی پرواہ نہ کرنا مجید نظامی کو وراثت میں ملا تھا ۔ یہ بابائے قوم کی وراثت جس نے پاکستان عطا کیا یہ مادر ملت کی وراثت جنہوں نے سخت گیر حالات میں اپنی ضعیفی کی پرواہ کئے بغیر قوم کے دلوں میں شمع جمہوریت کو روشن و تاباں رکھا ۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام کبریا بتایا کرتے تھے کہ ایوبی دور میں ایک روز پروفیسر منور مرزا کے ہمراہ مال روڈ سے گزر رہے تھے کہ نوائے وقت کے دفتر کے قریب پہنچ کر پروفیسر منور مرزا نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجید نظامی صاحب کو ایک پیغام پہچانا ہے اور چائے کا موڈ بھی ہے کیوں نہ نوائے وقت ہوتے چلیں نظامی صاحب سے ملاقات ہوجائے گی لہذا نوائے وقت مجید نظامی کے دفتر پہنچے چائے پیتے ہوئے پروفیسر منور مرزا نے کہا کہ نظامی صاحب آغاشورش کاشمیری نے پیغام دیا ہے کہ ایوب خان سے ڈر گئے ہو ۔یاد رہے اس دور میں آغاشورش کے میگزین ماہنامہ چٹان پر پابندی عائدتھی ۔آغاصاحب کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے جناب نظامی صاحب نے کہا کہ آغا جی سے فرمائیں کہ اخبار بند کرانے کے لئے صرف ایک غلط سطر کافی ہے جو بڑا آسان کام ہے مگر برے حالات میں قوم کی ترجمانی کرنا اخبارکو جاری و برقرار رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے ۔ پروفیسر غلام کبریا نے کہا کہ مجید نظامی کے جواب میں وزن تو تھا ہی مگر ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک دور اندیش دانشور اور منجھے ہوئے منصوبہ ساز اخبار نویس ہیں ۔
تحریک پاکستان میں عملی اور فعال کردار کے باعث تمام تحریکی زعماء سے رابطے واسطے رہتے ۔خصوصا نظریاتی کارکنوں کو بڑے احترام و اکرام سے ملتے ۔ چودھری محمد حسین سے نظریاتی وابستگی کے علاوہ ایک ضلع کی نسبت کے حوالے سے بھی بہت قربت اور محبت تھی ۔ چٹھہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے حاجی نعیم چٹھہ جو ضلع کونسل کے چیئر مین کے علاوہ صوبائی و قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن بھی رہے ۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک عرصہ جناب مجید نظامی کے ہمراہ رہے ۔ جناب نعیم چٹھہ نظامی صاحب کے حیات و خدمات کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ۔ وہ اکثر بتاتے ہیں کہ نظامی صاحب کی دو ایسی خواہشیں تھیں جسے مسلم لیگی حکومت کے لئے پورا کرنا کوئی معنی نہیں تھا مگر نظامی صاحب کے بنائے ہوئے مسلم لیگی حکمرانوں نے نہایت کم ظرفی اور محسن کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب مجید نظامی صاحب کے کہنے پر عمل سے گریز کیا ۔ نعیم چٹھہ نے بتایا کہ نظامی صاحب اپنے آبائی قصبہ سانگلہ ہل کو ضلع شیخوپورہ سے جدا کرنے پر خفا تھے ۔ نواز شریف پورے آب و تاب سے وزیر اعظم رہے اور شہباز شریف پورے جاہ و جلال سے دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے مگر اپنے مہربان اورمحسن کی ادنی سی خواہش پوری کرنے سے معذور و محروم رہے ۔ چٹھہ صاحب نے بتایا کہ جناب مجید نظامی کی سب سے بڑی خواہش مسلم لیگیوں کا اتحاد تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ جب نظامی صاحب نے لیگی اتحاد کا بیڑہ اٹھایا تو پیر صاحب پگارو نے غیر مشروط طور پر اپنا لیگی دھڑا ضم کرنے کا اختیار نظامی صاحب کو سونپ دیا ۔ چودھری شجاعت حسین نے بھی جناب نظامی صاحب کی دردمندانہ خواہش پر سر تسلیم خم کر دیا ۔صوبہ سرحد سے سلیم سیف اللہ کے علاوہ شیخ رشید بھی نظامی صاحب کے حکم کی تعمیل پر آمادہ دکھائی دیے مگر میاں نوازشریف نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر تقریر کرتے ہوئے بڑی بے باکی اور سفاکی سے نظامی صاحب کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کئے کہ جناب آپ اصل میں کھوٹ شامل کرنا چاہتے ہیں یہ کسی صورت ممکن نہیں۔رب کعبہ مملکت خداد پاکستان کی سیاسی و ثقافتی اشرافیہ کو مجاہد ملت مجید نظامی کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے ۔آمین (ختم شد)