مچھلی کی ڈش کو چکن کہنے پرخود بھی بہت ہنستی ہوں

عنبرین فاطمہ


آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے ہر کوئی گھر میں بیٹھا ہوا ہے اور گھر میں وقت گزاری کے لئے ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرتا دکھائی دیتا ہے دنیا بھر کی سلیبرٹیز آئے دن اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ سے کوئی نہ کوئی ایسی وڈیو اپ لوڈ کرتی ہیں تاکہ دیکھنے والوں کو گھر میں وقت گزارنے کی انسپریشن مل سکے۔ایسی ہی ہماری بھی ایک خاتون سیاستدان ہیں جن کاتعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے وہ آج کل کھانا بنانے کی وڈیوز اپ لوڈ کر کے لوگوں کی توجہ سمیٹ رہی ہیں ۔ایک روز انہوں نے مچھلی کی ڈش کو چکن بول دیا جس پر ان کا خاصا مذاق بھی بنایا گیا لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ ایسی چیز ہوئی جس پر میںجانتی ہوں کہ لوگ سال ہا سال ہنستے رہیں گے اور میں خود بھی ہنستی رہوں گی۔جی ہاں ہم ’’شرمیلا فاروقی‘‘کی بات کررہے ہیںگزشتہ دنوں ہم نے ان کا نوائے وقت کے لئے ہلکا پھلکا انٹرویو کیا ۔انہوں نے انٹرویو کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ مجھے خود بھی ہنسی آتی ہے کہ میں نے مچھلی بنائی اور اسے چکن بول گئی چکن بولنے کی وجہ یہ تھی کہ میںنے اس روز دو تین چکن کی ڈشز بنائی تھیں لہذاچکن منہ پہ چڑھا ہوا تھا اس لئے مچھلی کی ڈش کو بھی چکن کہہ گئی لیکن خیر ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے اتنی ٹینشن والے ماحول میں لوگوں کو میری زبان سے ادا ہونے والی ایک بات نے ہنسنے پر مجبور کر دیا ۔آج کرونا کی وجہ سے غیر معمولی حالات ہیں آج جو وبا پھیلی ہوئی وہ نہ ہماری نسل نے اور نہ ہی ہم سے پہلے والی نسل نے دیکھی سنی لہذا سب کے لئے گھر رہنا اور سختی سے اس پر عمل کرنا نئی اور مشکل چیز ہے ۔تین چار دن اگر ہم اپنی مرضی سے گھر سے باہر نہ نکلیں تو اتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن جہاں آپ کو کہہ دیا جائے کہ گھر میں ہی رہنا ہے باہر نہیں نکلنا یہ زرا مشکل ہوجاتا ہے ۔ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان ہر وقت گھر نہیں بیٹھ سکتا ۔میں آج کل گھر اور بچے کو مکمل وقت دے رہی ہوں کوکنگ خود کر رہی ہوں لائبریری سے کتابیں نکال کر پڑھ لیتی ہوں ٹی وی دیکھ لیا ایکسرسائز کر لی وغیرہ وغیرہ ۔جہاںتک کھانا بنانے کی وڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی بات ہے تو میرے سٹاف نے مجھے کہاکہ آج کل بہت سارے لوگ سوشل میڈیا پر کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں کیوں نا آپ کھانا بنانے کی وڈیوز اپلوڈ کریں مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا اور میں نے کھانا بنانے کی وڈیوز بنانی شروع کر دیں اور میرے سٹاف نے سوشل میڈیا پر ڈالنا شروع کردیں لوگوں کا ریسپانس دیکھ کر میں نے باقاعدہ یوٹیوب چینل بنا لیا ۔مجھے ویسے بھی کوکنگ کرنا اچھا لگتا ہے شادی سے پہلے کوکنگ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں نے شادی کے بعد دیکھا کہ میرے شوہر اور سسرال والوں کو اچھے کھانے کا بہت شوق ہے تو میں نے کوکنگ کرنا شروع کر دی ویسے بھی خود کھانا بنا کر مطمئن رہتی ہوں بیٹے کے کام بھی خود کرتی ہوں حالانکہ اس کے لئے ایک ملازمہ بھی رکھی ہوئی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس کے باوجود ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے بچے کی حفاظت کس طرح سے کی جا رہی ہے لیکن کبھی کبھی مصروفیت کی وجہ سے گھر کے ملازموں پراہم ذمہ داریاں ڈالنی پڑتی ہیں ۔میرے گھر کا سٹاف کوئی لمبا چوڑا نہیں ہے میںاپنے گھر کے معاملات خود یکھتی ہوں بلز تک میری نظر سے گزرتے ہیں اور مجھے پتہ ہوتا ہے کہ پچھلے مہینے کتنا بل آیا اور اس ماہ کتنا بل آیا ہے،میری کوشش ہوتی ہے کہ بجلی کی بچت کروں ہمارے ہاں سردیوں میں گیس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے دن ساڑھے بارہ بجے سے لیکر شام تک گیس نہیں ہوتی اس لئے مجبورا ہمیں بارہ بجے سے پہلے کھانا بنانا پڑتا ہے یہ تو حالات ہیں ۔ یہاں تک کہ گھر کا پندرہ دن یا مہینے کا راشن لانا ہو تو اس میں بھی میری انوالومنٹ ہوتی ہے اور مجھے پتہ ہوتا ہے کہ کونسی چیز کتنی منگوانی ہے اور کس چیز کی پچھلے ماہ کتنی قیمت تھی اور اس ماہ کتنی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ مہنگائی نے ایک طوفان بپا کر دیا ہے ہر چیز کی قیمت میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے ۔میں یہ بھی مانتی ہوں کہ ہم جیسے لوگوں کو یہ مسئلہ نہیںہوتا کہ کل کی روٹی کیسے پوری کرنی ہے لیکن عام عوام کا یہ مسئلہ ہے مہنگائی کی وجہ سے ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔وہ بلز کی ادائیگی نہیں کر پا رہے ،بچوں کی فیسیں گھروں کے کرائے نہیں دے پا رہے ،عام آدمی تو دال روٹی پر بھی گزارہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن آج دال کی قیمت بھی گوشت اور مرغی کے دام پر برابر ہے بجلی کا بل دس ہزار آتا تھا آج پندرہ ہزار آرہا ہے اخراجات بڑھ گئے ہیں لیکن آمدنی اتنی کی اتنی ہے ۔پتہ نہیں یہ عمران خان کا کونسا نیا پاکستان ہے ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہیے جہاں عوام بھوک افلاس اور فاقوں سے لوگ مریں ۔
ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ میں نے دو سال سے بالکل بھی کوئی مہنگاجوڑا نہیں بنایا گھر میںایک ٹی شرٹ اور ٹرائوزر میں ہوتی ہوں ویسے بھی ڈیزائنر جوڑے اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ انہیں خریدا جائے ۔کسی بھی ڈیزائنر کے پاس چلے جائیں تو وہ آپکو کسی کی شادی پر پہننے کے لئے جوڑے کی قیمت ہی ستر اسی ہزار بتائے گا پہلے ڈیزائنرجوڑے پانچ دس ہزار میںآسانی سے مل جاتے تھے لیکن اب تو لان کے جوڑوں کی قیمت بھی دس پندرہ ہزار سے کم نہیں ہے تو پھر کیا کپڑوں کی خریداری کرنی ۔میں نے اسمبلی میں جانے کے لئے لان کے جوڑے پہننے ہوتے ہیں اس سال میں نے اپنا ایک بجٹ بنایا اور دیکھا کہ کونسی کیٹگری میں کتنے کا جوڑا مل رہا ہے اے کیٹگری میں بہت مہنگے جوڑے تھے بی کیٹگری میں بھی یہی حال تھا پھر میں نے بہت ہی نیچے تک جا کر دیکھا تو دو ہزار اور ستائیس سو روپے تک جوڑے دستیاب تھے میں چند ایک جوڑے دو ہزار اور ستائیس سو روپے کے جوڑے خریدے اس کے علاوہ خالی لان کی قمیضیں خرید لیں انہیں میرے پاس موجود سفید دوپٹوں اور شلواروں کیساتھ زیب تن کروں گی۔بڑی بڑی سلیربرٹیز کو تو جوڑے سپانسر ہوجاتے ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا میری ایک دو سہیلیاں ڈیزائنرز ہیں وہ کبھی کبھارموسمی کلیکشن کا کوئی جوڑا بھیج دیتی ہیں تو وہ پہن کر انہیں تصویر بھیج دیتی ہوں وہ اپلوڈ کر دیتی ہیں ۔میں نے کبھی بھی آن لائن خریداری نہیں کی کیونکہ اس میں دکھاتے کچھ ہیں اور جب آپ کے پاس پہنچتا ہے تو وہ کچھ ہوتا ہے میں آن لائن شاپنگ کو دھوکہ سمجھتی ہوں ۔میں شاپنگ کی شوقین نہیں ہوں لیکن ضرورت پڑے توکوشش ہوتی ہے کہ کم پیسوں میں چیز خرید لوں تاکہ بچت ہو سکے ۔ویسے میں ہر رنگ پہن لیتی ہوں گرمیوں میں زیادہ ہلکے رنگ اچھے لگتے ہیں ۔ویسے تو میں سب کچھ اچھا بنا لیتی ہوں لیکن ’’دہی بھنا گوشت‘‘ بہت اچھا بناتی ہوں یہ میری امی کی ریسپی ہے میرے شوہر اور سسرال والوں کو بہت پسند ہے ۔جہاں تک میری بات ہے تو میں کھانے کی بہت شوقین ہوں رات کا کھانا دل کھول کر کھاتی ہوں صبح ایک گلاس موسمی جوس فریش پیتی ہوںپھر آدھا کپ کافی پیتی ہوں۔بارہ بجے سینڈوچ کھا تی ہوں۔میںنخرے نہیں کرتی کہ یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا لیکن چکن کی ڈشز زرا زیادہ پسند تھیں لیکن شادی کے بعد سسرال والوں کے گھر مٹن ہی بنتا اور شوہر کو بھی مٹن بریانی اور مٹن کی ڈشز پسند تھیں تو اب میں بھی زیادہ تر مٹن کی ڈشز ہی کھاتی ہوں ۔
ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ میرا فیس بک کااکائونٹ پرسنل ہے لیکن کوئی سو ڈیڑھ سو فیک اکائونٹ بنے ہوئے ہیں ،ہاں انسٹا گرام اور ٹویٹر کا استعمال کرتی ہوں ٹویٹر پر سنجیدہ ٹویٹس کرتی ہوں لیکن انسٹا گرام پر تصاویر بھی شئیر کر دیتی ہوںآج کل اپنا کوکنگ کا یوٹیوب چینل بھی چلا رہی ہوں ۔آخر میںانہوں نے کہا کہ جو لوگ کرونا کو سنجیدگی سے نہیں لیتے یا ڈرتے نہیں میں ان سے کہوں گی کہ میں تو کرونا سے بہت ڈرتی ہوں آپ بھی ڈریں احتیاط کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بار بار پانی پینے سے کورونا کو نہیں مارا جا سکتا
کورونا وائرس کے بارے میں ایک افواہ گردش میں ہے کہ پانی زیادہ پینے اور اپنے منہ کو تر رکھنے سے آپ اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔ بی بی سی فیوچر نے اس سلسلے میں شواہد کا جائزہ لیا۔پہلے ایک عجیب دعویٰ سامنے آیا کہ یہ کوکین سے کورونا ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جب یہ جھوٹ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ پھیلنے لگا تو فرانسیسی حکومت کو ایک بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ بات درست نہیں۔ اس کے بعد کہا گیا کہ آئسکریم سے دور رہنے سے آپ کورونا سے بچ جائیں گے، جس کے بعد یونیسیف کو کہنا پڑا کہ ایسا نہیں ہے۔ آخرکار ایک انتہائی خطرناک اور جھوٹا ٹوٹکا سامنے آیا، کہ بلیچ پینے سے کورونا کو مارا جا سکتا ہے۔اگرچہ کورونا کی وبا چند ماہ قبل ہی سامنے آئی ہے، اس کے بارے میں بہت سے غیر مؤثر ٹوٹکے اور آن لائن جھوٹی باتیں سامنے آ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے کہ پانی پینے سے آپ انفیکشن سے بچ سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تحریر یہ بتاتی ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں ابتدائی پوسٹوں میں کہا گیا تھا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا منہ اور گلہ ہمیشہ تر رہے اور ہمیں تقریباً ہر 15 منٹ کے بعد پانی پینا چاہیے۔ اس میں منطق یہ تھی کہ پانی سے وائرس آپ کے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور وہاں پر معدے کے تیزاب سے مر جائے گا۔لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی ماہرِ وبائی امراض کلپنا سباپتھی کہتی ہیں کہ ‘یہ اس قدر سادہ بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے بیان کروں۔وہ بتاتی ہیں کہ ہمیں انفیکشن عموماً تب لگتا ہے جب ہمیں ہزاروں یا لاکھوں وائرل ذرات لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو معدے تک پہنچانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ آپ نے سارے ذرات کو پانی سے معدے میں پہنچا دیا ہوگا۔ تب تک وہ آپ کے ناک میں ویسے ہی پہنچ چکے ہوں گے۔ یہ طریقہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگر وائرس آپ کے سانس کے راستے تک نہیں بھی پہنچتا تو وہ آپ کے جسم میں کئی اور طریقوں سے بھی داخل ہو سکتا ہے۔شاید کوئی اپنی ایسی انگلیوں جن پر وائرس لگ چکا ہو، کو اپنے منہ کے قریب لے جانے سے متاثر ہو تو کوئی آنکھوں یا ناک کو انگلیاں لگانے سے بھی متاثر ہو سکتا ہے۔پانی پینے کا طریقہ نہ چلنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ آپ کو شاید یہ غلط فہمی ہو کہ ایک دفعہ وہ معدے میں پہنچ گیا تو مر جائے گا۔ظاہر ہے معدے میں تیزاب کی سطح کافی زیادہ ہوتی ہے۔ مگر وائرس اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہیں۔ 2012 میں سعودی عرب میں مرز کی وبا کے دوران محققین کو معلوم ہوا کہ مرز کا وائرس (جو کورونا وائرس کی اقسام میں سے ایک ہے اور کووڈ 19 کے قریب ہے) معدے کے تیزاب کا خوب مقابلہ کر سکتا تھا۔محققین کو معلوم ہوا کہ وائرس انسانی آنت میں بھی جگہ بنا سکتا تھا اور یہ بھی انفیکشن ہونے کا ایک ممکنہ طریقہ تھا۔ابھی یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ کیا کووڈ 19 بھی ایسا کر سکتا ہے۔ کچھ مریضوں نے اْپکائی اور ڈائریہ کی شکایت کی ہے اور اب چینی ماہرین کہہ رہے کہ اس وائرس میں آنت سے انفیکشن پھیلانے کی صلاحیت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 فیصد لوگوں میں یہ انسانی اخراج میں بھی زندہ پایا گیا ہے جہاں یہ پھیپھڑوں سے کلیئر ہونے کے بعد بھی موجود رہتا ہے۔اْس تحقیق میں اس بات کو جانچا گیا کہ کیا غرارے کرنے سے سانس کے راستے کے انفیکشن کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ یہ طریقہ جاپان میں کافی مقبول ہے۔اس تحقیق سے پتا چلا کہ ایک 60 روز کے دورانیے میں جو لوگ دن میں تین مرتبہ غرارے کرتے تھے ان میں سانس کے راستے کے انفیکشن کی علامات ظاہر کرنے کی شرح کم ہوتی ہے۔ مگر ان نتائج کو کووڈ 19 سے براہِ راست نہیں جوڑا جا سکتا اور ایسا کرنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔کلپنا سباپتھی کہتی ہیں کہ اگرچہ ہر 15 منٹ بعد پانی پینے کا مشورہ بظاہر بے ضرر ہے تاہم غلط معلومات کی فوراً تردید کرنا بھی اہم ہے۔وہ کہتی ہیں کہ مسئلہ اس جھوٹی سیکیورٹی کے احساس کا ہے جو لوگوں میں پیدا ہوجائے گا اگر اسے مان لیا جائے اور پھر لوگ اہم معلومات کو رد کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن