کم و بیش 20سال قبل کی بات ہے اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مشاہد حسین سید نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دو سالہ مندوبین کے اعزاز میں راول جھیل کے کنارے پر تکلف عشائیہ کا انتظام کر رکھا تھا . میرے ساتھ ایک کونے میں مسلم لیگی رہنما سر انجام خان بیٹھے تھے ہم دونوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کے’’ رومانس ‘‘ کے منطقی انجام پر بات کررہے تھے کہ اچانک سر انجام خان دھاڑیں مار کر رونے لگے تو میں کچھ پریشان ہو گیا کی خان صاحب کو کیا ہو گیا ہے وہ ایک سکہ بند مسلم لیگی تھے جن کے جسم میں سر تاپا ’’کٹرمسلم لیگی ‘‘ باپ کا خون موجزن تھا سرانجام خان گویا ہوئے ’’ میرا خان عبد الولی خان سے خون کا رشتہ ہے ہم دونوں خالہ زاد بھائی ہیں لیکن میری اور ان کی سیاسی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے میں تو تھا پیدائشی مسلم لیگی جب کہ خان کی سیاست کے ڈانڈے تو کانگریس سے جا ملتے تھے ۔ میرے والد بچپن میںہی داغ مفارقت دے گئے تھے خان عبد الولی خان کے خاندان نے سرخپوشوں کی قوت بننے کی دعوت دی لیکن میں نے انہیں ٹکا سا جواب دے دیا میں نے ان سے کہا کہ ’’جس راہ پر میرے والد چلتے رہے میں اسی پر چلتا رہوں گا حالانکہ جب میرے والد محترم ہمیں چھوڑ کر دار فانی کوچ کر گئے اس وقت میرا بچپن تھا اور کسی سہارے کی ضرورت تھی میں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کسی سہارے کے عوض اپنا سیاسی قبلہ تبدیل نہیں کیا ‘‘ میرا سرانجام سے عمر بھر احترام کا رشتہ قائم رہا ہے جب پرویز مشرف کے مارشلائی دور میں میاں نواز شریف کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا تو یہ سر انجام خان ہی تھے جنہوں نے ایف ایٹ اسلام آبادمیں بے سروسامانی کے عالم میں پی ایم ایل این کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے’’ ڈیرہ ‘‘ لگائے رکھا اس وقت مسلم لیگ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ روزمرہ کے اخراجات پورے کر سکتی جب پرویز مشرف نے سرکاری مسلم لیگ بنانے کے لئے محمد علی خان ہوتی اور سر انجام خان پر دبائو ڈالا تو انہوں نے میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا جب ان پر مزید دبائو ڈال گیا تو وہ دونوں راجہ محمد ظفر الحق کے پاس موتمر عالم اسلامی کے دفتر پہنچ گئے راجہ محمد ظفر الحق ان کے لئے قوت و استقامت کا باعث تھے انہوں نے دونوں سے پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا سو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی راجہ محمد ظفر الحق ، محمد خان ہوتی اور سرنجام سے مایوس ہو کر میاں اظہر کی سربراہی میں سرکاری مسلم لیگ کی بنیادرکھی گئی سر انجام پکے مسلم لیگی اور’’چارسدہ سکول آف تھاٹ‘‘ کے مخالف تھے اگر یہ کہا جائے کہ سرانجام خان خیبر پختونخوا میں پاکستان کی جیتی جاگتی تصویر تھے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گا وہ اول و آخر سچے پاکستانی تھے ان کی دوستی اور دشمنی کا معیار پاکستان تھا عمر بھر خان عبدالولی خان کی سوچ کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے جب میاں نواز شریف نے آئین میں18ویں ترمیم منظوری کے وقت صوبہ سرحد کانام ’’خیبر پختونخواہ ‘‘ رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا تو یہ ہزارہ کے دیرینہ مسلم لیگی مہتاب احمد خان اور سر انجام خان ہی تھے جنہوں نے کھل کر سرخپوشوں کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کی مخالفت کی جس کے بعد میاں نواز شریف نے بھی صوبہ سرحد کا نام ’’پختونستان‘‘ رکھنے سے انکارکر دیا بعدازاں میاں نواز شریف کا تجویز کردہ نام ’’خیبر پختونخوا ‘‘ قبول کرنے پر آمادہ ہو گئی ۔ وہ کوئی بات تسلیم نہ کئے جانے پر جلد ناراض ہو جاتے تھے لیکن جلد ہی ان کو منا بھی لیا جاتا سر انجام خان کی وفات سے خیبر پختونخوا میں پی ایم ایل این کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے پیرانہ سالی ان کے پائوں کی زنجیر بن گئی ہزارہ کی ممتاز شخصیت مہتاب احمد خان بھی خیبرپختونخوا میں اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے ذکر کے بغیر کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) نامکمل ہے تاہم خیبر پختونخوا مسلم لیگ میں امیر مقام کی شمولیت نے دن رات محنت کر کے تن مردہ جان میںڈال دی ہے خیبر پختونخوا میں پی ایم ایل این ایک مضبوط جماعت بن کر ابھری ہے لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں خیبرپختونخوا میں پی ایم ایل این ایک بار پھر اپنا مقام حاصل کر لے گی
سر انجام کی وفات کے اگلے روز جہلم کی ممتاز سیاسی شخصیت راجہ محمد افضل خان وفات پا گئی اسی روز پی ایم ایل این پنجاب کے جنرل سیکریٹری راجہ اشفاق سرور طویل علالت کے باعث موت و زیست کی جنگ ہار گئے ۔ راجہ محمد افضل کا طویل سیاسی کیرئیر ہے راجہ اشفاق سرور جواں سال تھے لیکن شوگر کے مرض کے ہاتھوں ان کی موت ہو گئی ۔ راجہ محمد افضل سے میری بڑی دوستی تھی جب تک وہ ملکی سیاست میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جار ی رہتا تھا انکا شمار پی ایم ایل این کے بانیان میں شمار ہوتا ہے جب سابق وفاقی وزیر اور ڈپٹی سپیکر الحاج نواز کھو کھر کی رہائش گاہ پر پی ایم ایل این کی بنیادرکھی گئی تو اس وقت میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے والوں میں جہاں راجہ محمد ظفر الحق ، چوہدری نثار علی خان اور الحاج نواز کھوکھر شامل تھے وہاں راجہ محمد افضل بھی تھے پوری قوت سے کھڑے تھے راجہ محمد افضل ایک بہادر اور جرات مند سیاست دان تھے جب تک میاں نواز شریف کے ساتھ رہے ان کے ساتھ وفا نبھائی کچھ عرصہ کے لئے ناراض ہو کر پیپلز پارٹی اور بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے لیکن وہ جلد ہی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) میں واپس آگئے ان کی ناراضی کی وجہ بھی پارٹی کے کچھ رہنما تھے جنہوں نے انکے لئے جہلم میں سیاست کرنا مشکل بنا دیا تھا جب پرویز مشرف نے گریجویشن کی پابندی لگا کر راجہ محمد افضل کا پارلیمنٹ کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو وہ مارشلائی حکومت کے سامنے ڈٹ گئے اس وقت پرویز مشرف کا بڑا دبدبہ تھا کوئی شخص ان کی جماعت کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا ان کے دونوں صاحبزادے راجہ محمد اسد اور راجہ محمد صفدر نے جہلم کے دونوں حلقوں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے راجہ محمد افضل خان نے جہلم ہی کو خدمت کا مرکز بنایا انہیں ’’خادم جہلم ‘‘ کہا جاتا تھا وہ جہلم سے چار مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، پہلی مرتبہ 1985 میں، دوسری مرتبہ 1988،تیسری مرتبہ 1993اور چوتھی مرتبہ 1997کو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، 1990کا الیکشن صرف 351ووٹوں سے ہار گئے لیکن پارٹی کی اعلی قیادت نے انہیں سینیٹ کا رکن منتخب کرا لیا میاںنواز شریف نے عام انتخابات میں شکست کھانے والوں کو سینیٹ کا ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا لیکن راجہ محمد افضل کو گھر فون کر کے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی نوید سنائی اس کی وجہ یہ تھی کہ راجہ محمد افضل کا شمار میاں نواز شریف کے وفادار ساتھیوں میں ہوتا تھا جب میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو ان کو وزارت کے منصب سے ہٹانے کے پیر صاحب پگارا نے لاہور میں ڈیرے ڈال لئے اور کہا کہ ’’ میںنے بوری میں سوراخ کر دیا ہے اب ایک ایک کرکے دانے نکل جائیں گے ‘‘تو الحاج نواز کھوکھر اور راجہ محمد افضل نے درجن بھر ارکان قومی اسمبلی کے ہمراہ اسلام آباد میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو جو کہ پیر صاحب پگارا کے آدمی تھے کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی جب بات جنرل ضیا الحق تک پہنچی تو پیر صاحب پگارا نے میاںنواز شریف کا تعاقب چھوڑ دیا ، راجہ محمد افضل ایک محنتی پارلیمنٹیرین تھے قومی اسمبلی کی کاروائی میں تقریباً ہر روز راجہ افضل کا بزنس ایجنڈا پر شامل ہوتا سینیٹ میں بھی ان کی پر زور آواز گونجتی تھی ،1993 کی قومی اسمبلی میں راجہ افضل سب سے زیادہ ہائوس بزنس دینے والے رکن تھے انہوں نے کل 900تحاریک التواء میں سے 300کے نوٹس دیئے جو قومی اسمبلی کا ایک ریکارڈ ہے جہلم کے لوگوں کیلئے اعزاز ہے کہ وہ نہ صرف یہ بلکہ سینیٹ میں تھوڑا عرصہ رہنے کے باوجود اتنے سر گرم تھے ، سینیٹ آف پاکستان نے جو ’’رولنگ آف دی چیئر‘‘ کتاب شائع کی ہے اس میں راجہ محمد افضل کے اٹھائے ہوئے ایشوز کو موضوع بنایا ہے اور آنے والے دنوں ان ہی سے رہنمائی کی جاتی رہے جائے گی۔ ملک نعیم اعوان مرحوم سابق وفاقی وزیر انہیں’’ راجہ صاحب آف سالٹ‘‘ کہا کرتے تھے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق نے راجہ محمد افضل اور مخدوم جاوید ہاشمی نے راجہ افضل کو زبر دست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے راجہ محمد افضل کی وفات سے جہلم کی سیاست میں خلا سالہاسال تک پورا نہیں کیا جا سکے گا … سابق صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور شمار ہر دلعزیز مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے وہ مری کے ’’بے تاج بادشاہ ‘‘ تھے وہ دوستوں کے دوست تھے انہوں نے اپنے علاقے کی خدمت کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا ئی انے والد محترم راجہ غلام سرور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن تھے جب جنرلپرویز مشرف نے راجہ اشفاق سرور کا انتخابی راستہ روکا تو انہوں اپنی اس نشست سے چچا زاد بھائی فیاض سرور کو پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب کروا لیا بہر حال مری ان کا مضبوط سیاسی گڑھ ہے اور پورے علاقے میں راجہ اشفاق سرور کا طوطی بولتا ہے ۔ شوگر کے مرض سے لڑتے لڑتے وہ اپنی جان کی بازی ہا ر گئے۔ میری ان کے ساتھ دوستی تھی وہ ملکی سیاست پر کھل کر بات کتے تھے ان کا شمار بھی میاںنواز شریف کے جانثار ساتھیوں میں ہوتا تھا ۔ پرویز مشرف دور انہیں بھی برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی لیکن انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ پر بعیت نہیں کی وہ پی ایم ایل این میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے قریب تصور کئے جاتے تھے ، راجہ عتیق سرور راجہ اشفاق سرور کے سیاسی جانشین ہیں ان کے بھائی ڈاکٹر شفیق سرور بھی ریٹائرمنٹ کے بعد علاقے میں عوامی خدمت کر رہے ہیں پی ایم ایل این کے قائد محمد نواز شریف ،صدر میاں شہباز شریف چیئرمین راجہ محمد ظفرالحق اور مخدوم جاوید ہاشمی نے راجہ اشفاق سرور کو زبر دست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے انکی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا شمار وفادار ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوںاپنی پوری زندگی مسلم لیگ (ن) کے لئے وقف کررکھی ان کی وفات سے مری میں مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے توقع ہے کہ ان کے برادر اصغر راجہ عتیق سرور اس خلا ء کو پر کرنے کی کوشش کریں گے ۔