گذشتہ روز دو دکھ کی خبریں ملیں، صبح صبح آئی اے رحمان کے انتقال کی خبر ملی تو شام کو ضیاء شاہد بھی انتقال کر گئے۔ بے شک ہم سب نے واپس جانا ہے۔ ضیاشاہد گردوں کے عارضے سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ وہ گذشتہ دو ہفتوں سے سپتال میں زیر علاج تھے۔ ضیا شاہد ایک ذہین، قابل اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شخص تھے۔ اخبارات میں کام کرتے کرتے انہوں نے اپنا اخبار نکالا اور پھر اسے کامیابی چلایا۔ انہوں نے صحافت میں کئی نئی چیزیں متعارف کروائیں، وہ عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہوتے اور مظلوم کا ساتھ دیتے دیتے اپنے اخبار کو مقبول بنا گئے۔ انہوں نے ایسے وقت میں اخبار نکالا جب کسی عام آدمی کے لیے یہ سوچنا بھی مشکل تھا، ان کے جملے اور سوال کرنے کا انداز بھی منفرد تھا۔ صاف اور سیدھی بات کرتے تھے۔ ان کے اخبار سے تیار ہونے والے صحافی آج بھی مختلف اداروں میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ مختلف زبانوں میں اخبارات کا تجربہ بھی ضیا شاہد کہ تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ ایک کامیاب صحافی اور منتظم تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ضیا شاہد تجربات سے نہیں گھبراتے تھے انہوں نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ اگر جان توڑ محنت کی جائے، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا جائے اور عوام کے مسائل کو منفرد انداز میں سامنے لایا جائے تو جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ بہرحال ان کے کریڈٹ پر کئی اچھی چیزیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نئے آنے والوں کے لیے کام کرنے کا غیر روایتی انداز سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ جن لوگوں نے ضیا شاہد کے ساتھ کام کیا ہے وہ ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ اردو، انگریزی، علاقائی زبانوں میں اخبارات کے بعد ٹیلیویڑن چینل بھی شروع کیا اور جب تک صحت مند رہے اپنے چینل پر سیاسی تبصرے بھی کرتے رہے۔ ان کے انتقال سے پاکستان کا کمزور طبقہ ایک بلند آواز سے محروم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کئی ادوار دیکھے، فوجی و سیاسی حکومتوں میں اخبار چلایا، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی رازوں کے امین تھے۔ ان کا ایک نعرہ جہاں ظلم وہاں خبریں بہت مشہور ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا سے پہلے جب صرف اخبارات کا دور تھا ان دنوں یہ بہت مشہور تھا۔ ضیا شاہد نے ایسے کئی اچھوتے کام کیے جس کی وجہ سے عام آدمی تک پہنچے۔ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنی رحمتوں میں رکھے۔ ہمیں سب کو بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
آئی اے رحمان کا انتقال ہو ہے وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھے۔ وہ آزادی اظہار، انصاف کی فراہمی اور آئین کے تحفط کے لیے قلم سے بھی جدوجہد کرتے ہوئے تقریباً پینسٹھ برس صحافت سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مختلف مسائل کو اجاگر کیا۔ وہ اہم موضوعات پر کالم بھی لکھتے رہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے ذریعے عوامی حقوق کی جدوجہد کی اور وہ تقریباً دو دہائی تک ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کیڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ جب کہ 2017 تک ایچ آرسی پی میں سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ انہیں 2017 میں ہیومن رائٹس آئیکون ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ضیا شاہد اور آئی اے رحمان کے انتقال پر سیاست دانوں، سینئر صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ دونوں نے بھرپور کیرئیر گذارا اور اپنی اپنی جگہ ملک میں بہتری کے لیے کوششیں کرتے رہے۔
ہم سب نے اپنا وقت پورا ہونے پر واپس چلے جانا ہے۔ کوئی کتنا ہی طاقتور، مالدار، بااثر، تعلقات رکھتا ہو موت کے بعد تو کوئی تعلق کام نہیں آتا وہاں تو صرف وہی کام آئے گا جو اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔ جو ہم آگے بھیجیں گے وہی واپس ہم تک آئے گا۔ گذشتہ چند دنوں میں کتنی ایسی شخصیات رخصت ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں ملک کی بہت خدمت کی ہے، سب جانے والے ایسے تھے جو ہر وقت اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کا سوچتے اور کرتے رہتے تھے۔ نامور گلوکار شوکت علی کا انتقال ہوا ہے۔ وہ جنگ کے دنوں میں بھی قوم کو اپنے ملی نغموں سے جگانے اور دشمن پر اپنی گرجدار آواز کی دھاک بٹھانے میں مصروف رہے۔ سننے والے ان کے صوفیانہ کلام سے محظوظ ہوتے رہے۔ وہ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں فوک گلوکاری کا بہت بڑا نام تھے۔ ان کے پرستار بھارت میں بھی موجود تھے۔ حسینہ معین کا انتقال بھی ہوا انہوں نے اپنے شعبے میں بہت کام کیا بلکہ تاریخی کام کیا۔ کیا ہی اچھی ڈرامہ نگار تھیں۔ کیسے مثبت انداز میں مسائل کو اجاگر کرتی تھیں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کیا اور ان دنوں بننے والے ٹی وی ڈراموں کے معیار پر بھی کھل کر اظہار کرتی تھیں۔ کنول نصیر کا انتقال ہوا۔ پاکستان ٹیلی ویڑن کی پہلی خاتون نیوز پریذینٹر تھیں۔ بھرپور کیرئیر گذارا۔ گذشتہ روز ہی نامور نعت گو، محقق، نقاد اور مدیر ماہنامہ نعت راجہ رشید محمود بھی انتقال کر گئے۔ پچاس سے زائد نعتیہ مجموعوں کی تخلیق ان کا منفرد اعزاز ہے۔ نعتیہ تحقیق کے ضمن میں ماہنامہ نعت نے بھی مسلسل اشاعت کے ریکارڈ قائم گئے۔ ماہنامہ نعت نعتیہ ادب میں حوالے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ متعدد نعتیہ کتب اور تحقیقی مضامین پر انہیں صدارتی انعام سے بھی نوازا گیا۔ پی ٹی وی کے نعتیہ مشاعروں مذہبی پروگراموں میں بطور سکالرز بھی شریک ہوتے رہے۔ ان کے 62 نعتیہ اور 6 حمدیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جبکہ 10 مزید زیر ترتیب ہیں۔ جامعات میں ان کی خدمات اور تحقیقی کام پر مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ان کے انتقال پر علمی و ادبی اور مذہبی حلقوں نے بہت رنج اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ثنا خواں و ثنا گو سرور حسین نقشبندی کا فون آیا بہت دکھ میں تھے وہ بتا رہے تھے کہ راجہ رشید محمود کی نعتیہ خدمات کو کسی طور بھلایا نہیں جا سکے گا۔ ان کا کام اتنا وقیع اور کثیر الجہات ہے کہ نعت کے طالب علموں کو اس کی تحقیق کے لئے خاصا وقت درکار ہو گا۔ سب سے زیادہ حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں کا اعزاز انہیں دوسروں سے ہمیشہ ممتاز رکھے گا۔ علمی و فکری اعتبار سے انہوں نے نعتیہ ادب کو اتنا ثروت مند کیا ہے جس کی کوئی اور مثال موجود نہیں ہے۔ انہیں نعتیہ صحافت کا بانی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
بس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
کل نفس ذائقہ الموت
قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین۔
فرما دیجئے بیشک میری نماز، میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ایک ایک لفظ لکھا جا رہا ہے، ہمارا ایک ایک عمل محفوظ ہے۔ ہم جو کر رہے ہیں، جو کہہ رہے ہیں، جو لکھ رہے ہیں اس سب کا حساب ہم نے ہی دینا ہے۔ ہمارے اعضائ، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں سب گواہی دیں گے کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی میں یہ دیکھنا چاہیے کیونکہ جب دل کی دھڑکن رک جائے گی، جب وقت ختم ہو جائے گا۔ تب کچھ نہیں ہو سکے گا اس لیے جب تک سانسیں چل رہی ہیں اس وقت سے فائدہ اٹھائیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، رحم کریں، درگذر کریں، معاف کریں، رکاوٹیں کھڑی نہ کریں تاکہ لوگ ہمارے جانے کے بعد اچھے لفظوں میں یاد کریں اور ہماری بخشش و مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھاتے رہیں۔ ان جانے والوں کو دیکھ لیں اب یہ خود کچھ نہیں کر سکتے کل ہم نے ان کی جگہ پر ہونا ہے وہ وقت آنے سے پہلے پہلے جو کر سکتے ہیں کر لیں۔