میں اس وقت سیکرٹری انفارمیشن حکومت پنجاب تھا۔ مجھے ایڈیٹر روزنامہ ’’تجارت‘‘ اور CPNE کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا۔ جمیل اطہر قاضی صاحب نے سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک خصوصی مہمان کیلئے ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ لاہور کے ہر قابل ذکر شخص کو مدعو کیا گیا تھا۔ دعوت میں شریک نہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہر حکومت کی رگِ جاں پنجۂ صحافت میں ہوتی ہے۔ دریا میں رہ کر محاوراتی مگرمچھ سے بیر تو رکھا جا سکتا ہے مگر اہلِ صحافت سے ناراضی کسی طور مول نہیں لی جا سکتی۔ نائے ضعیف سے بنی ہوئی قلم میں وہ طاقت ہوتی ہے جوکسی لحیم شحیم دیو میں بھی نہیں ہوتی۔
قلم میں حِلم بھی ہے، ناز اور وقار بھی ہے
اذانِ صبح بھی ہے‘ شام ِبادۂ خوار بھی ہے
مثالِ حضرت آدم گنہگار بھی ہے
حریمِ عصمت مریم کا پردہ دار بھی ہے
البتہ یہ کُھد بُد ضرو پیدا ہوئی کہ عرب سے آئی ہوئی وہ کونسی شخصیت ہے جس کیلئے اس قدر تاکید کی گئی ہے اور خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ کوئی عرب شہزادہ کوئی حکمران یا oil baron؟ قاضی صاحب سے میرا تعارف بھی رسمی تھا۔ حکومت کے ہر نئے میڈیا منیجر کو اخبار مالکان اور ایڈیٹر صاحبان کو کرٹسی کال کرنا پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں ان سے ایک دفعہ ملا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں :
تامرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
نہایت جاذب نظر شخصیت، دلکش گفتگو، سوچ میں ڈال دینے والے شبد رعونت سے کوسوں دور۔ میں ایک خوشگوار تأثر لیکر انکے دفتر سے واپس آیا۔جب شریک دعوت ہوا تو ایک روح پرور ماحول دیکھا۔ کوئی عرب شیخ، حکمران قد کاٹھ میں اس کے برابر نہ تھا۔ وہ مسجد نبوی کا جاروب کش تھا۔ علامہ اقبال نے ویسے تو نہیں کہا تھا:
لیکن بلال، وہ حبشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نورِ نبوت سے مستنیر
اقبال کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے!
غلامانِ محمدِ عربیؐ کا درجہ شاہوں سے کم نہیں ہوتا۔ یامظہر العجائب! تو نے کیا انسانِ کامل بھیجا! جس کی تعلیمات نے قلوب کو منور کیا۔ اذہان کو جلا بخشی، فکر انسانی کو آزاد کیا۔ بتانِ رنگ و خوں کو پاش پاش کیا۔ زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا۔ مرنے کے آداب بتائے۔ آدمیت کو معراج بخشی، ثبوتِ حق بھی پیش کیا اور پیغامِ حق بھی ذہن نشین کرایا۔ وہ جو کاروانِ انبیا کا قافلہ سالار تھا، وہ جو افواجِ دیں کا سالار تھا۔ وہ جو علم و حکمت کا خزانہ تھا۔ پیکرِ جود وسخا، مرکزِ صدق و صفا، کتاب اللہ کی زندہ تفسیر، آسمانِ رسالت کے بدرِ منیر۔ چودہ سو سال بیت گئے۔ چودہ ہزار برس گزر جائینگے۔ چودہ لاکھ صدیاں تمام ہو جائیں گی۔ اتباعِ رسولؐ میں کمی نہیں آئے گی۔ عجز و عقیدت کے چشمے کبھی خشک نہیں ہونگے۔ موئے مبارک مرجعِ خلائق بن جاتا ہے۔ پاپوش تخت پوش چومتے ہیں۔ دریدہ کالی کملی جو عقیدت کا استعارہ بن گئی۔ اُمی جو مدینہ العلم تھا، سراسر حلم تھا۔ سید المرسلین۔ آں امام اولین و آخریں!
لٹریچر دو قسم کا ہوتا ہے:
1-Literature of Knowledge
2-Literature of Power
پہلے کی اہمیت جزو وقتی ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اسے طاق نسیاں میں ڈال دیتے ہیں۔ جیسے مولانا کوثر نیازی کی کتاب ’’اور لائین کٹ گئی‘‘ یا رائو رشید کی تصنیف ’’جو میں نے دیکھا‘‘۔ لٹریچر آف پاورروح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ انسان کو بلندیوں پر لے جاتا ہے۔ مرورِ ایام اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ یہ ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جمیل اطہر صاحب کی تصنیف ان دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے بڑی سہولت، سلاست اور پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ اسے لکھا ہے۔ کسی جگہ بھی کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے۔ 120/- روپے ماہانہ ملازمت کا ذکر بھی بڑے فخر سے کیا ہے۔ اس مصلحت پسندی یا منافقت کا شکار نہیں ہوئے جو آجکل ہماری صحافت، سیاست اور ثقافت کا سکہ رائج الوقت ہے۔ واقعات کو من و عن لکھا ہے۔ بارہ مصالحوں کی چاٹ سے تحریر میں رنگ بھرنے کی کوشش نہیں کی۔ اردو اور انگریزی ادب میں کئی قسم کی سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں۔ روسو نے Confessions میں جس قسم کے انکشاف کیے وہ ہمارے معاشرے میں بیان نہیں ہو سکتے۔ انگریزی کا محاورہ ہے۔
Morality is the way to behave as you have been taught to behave.
اہل مشرق کی اخلاقیات اور روایات مغرب سے مختلف ہیں۔ جوش ملیح آبادی کی سوانح عمری ’’یادوں کی برات‘‘ روسو کی تصنیف سے قریب ہے۔ زبان و بیان کی خوبیوں کے باوجود اسے اکثریت نے پسند نہیں کیا۔ اپنے معاشقوں میں اس قدر مبالغہ آرائی صرف وہ ہی کر سکتے تھے۔ معاشقے بھی ہر طرح کے!
میر کیا سادے میں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
منہ میں چاندی کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے تھے۔ اپنی انہی یاوہ گوئیوں کے سبب زندگی کے آخری ایام عُسرت و تنگدستی میں گزرے۔ ایک اتنے عظیم شاعر کو چند سو روپے کی پنشن کیلئے بھٹو کو بار بار درخواست دینا پڑی۔ برہنہ گفتار تو تھے ہی بسا اوقات ایسی بات بھی کہہ جاتے جس پر الحاد کا گمان گزرتا؎
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوت حق کیلئے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
اب اس نیک بخت کو کون سمجھاتا کہ ثبوتِ حق کے ساتھ ساتھ پیغامِ حق بھی پہنچانا ضروری تھا اور یہ کام رسالت مآبؐ نے کیا۔ جہاں تک اردو نثر کا تعلق ہے، شاید ہی کوئی کتاب اس سے بہتر لکھی گئی ہو۔ جاوید اقبال نے بھی ایک اچھی کتاب لکھنے کے باوصف رائے عامہ کو مایوس کیا۔ کیا شاعرِ مشرق کا فرزند کاروں اور میموں کے ماڈلز کا اس قدر رسیا ہو سکتا ہے۔ قراۃ العین حیدر کی کتاب ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی شاید ہی کوئی قابل ذکر فیملی ہو جو ان کی چوکھٹ پر ’’سجدہ ریز‘‘ نہیں ہوئی۔جج صاحبان نے جو سوانح عمریاں لکھی ہیں ان میں ’’ارشاد نامہ‘‘ بہترین ہے۔ بہت سی غلط فہمیاں جو عوام کے ذہن میں تھیں انہوں نے بیک جنبش قلم انہیں دور کر دیا ہے۔ انہوں نے جنرل مشرف کو جو مراعات دیں وہ دراصل اسے پابند کرنے کے مترادف تھیں جو شخص آئین توڑ سکتا ہے، وہ منطقی طور پر ترمیم بھی کر سکتا ہے۔ پھر ایسی ترامیم کا کیا فائدہ جنہیں آنے والی اسمبلی ایک گھنٹے میں ختم کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔ ’’شہاب نامہ‘‘ پر میں اپنے پہلے کالم میں تبصرہ کر چکا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کہتے تھے، جو انہوں نے Facts لکھے ہیں وہ ’’فکشن‘‘ ہیں، اور فکشن حقائق کے قریب ہے۔ مشفق خواجہ نے اسے اچھا ناول قرار دیا۔ نیک انسان تھے۔ نماز پنجگانہ ادا کرتے۔ بہت اچھے ادیب تھے۔ بدقسمتی سے رائٹرز گلڈ کے حواریوں کی جو فوج ان کے اردگرد جمع ہو گئی تھی وہ انہیں اس مقام پر لے گئی جہاں پر بشر کے بھٹکنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کشور ناہید نے ’’ایک بری عورت کی کتھا‘‘ لکھی ہے۔ نامور شاعرہ ہیں۔ انکے پرستاروں کو کتاب کی نسبت عنوان زیادہ پسند آیا۔ احسان دانش کی کتاب ’’جہانِ دانش‘‘ کو لوگوں نے اس لیے پسند کیا کہ اس کے پڑھنے سے محنت کی عظمت کا تأثر اُجاگر ہوتا ہے۔ جمیل اطہر صاحب کی کتاب ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘ کو ایک ہی ترازو میں تولا جا سکتا ہے۔ جس طرح عقیق سو بار کٹنے کے بعد نگینہ بنتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی محنت کی بھٹی سے نکل کر کندن ہو جاتا ہے۔ محنتی انسان کبھی کسی کا زیربار نہیں ہوتا۔ دست نگر نہیں رہتا۔ احسان نہیں اٹھاتا۔
دیوار بارِ منتِ مزدور سے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے