کچن ٹرک پالیسی سے عوام کے بھکاری ہونے کا تأثر نہیں ابھرنا چاہیے

Apr 13, 2021

اداریہ

وزیراعظم کا کچن ٹرک کا جال ملک بھر میں پھیلانے کا عزم اور عوام پر لگانے کیلئے پیسہ کی کمی کا اظہار 
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ پورے پاکستان میں کچن ٹرک کا جال بچھائیں گے۔ جب ایک ریاست مستحق افراد کے گھر کھانا پہنچانے کی ذمہ داری لے گی اور مستحق افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں گے تو اللہ کی برکت پاکستان پر نازل ہوگی۔گزشتہ روز ایک ساتھ احساس ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ پروگرام کو لاہور، پشاور اور فیصل آباد تک وسعت دینے کی ورچوئل افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مقصد کے تحت وجود میں آیا تاہم اس راستے پر نہیں چل سکا۔ آج ہم پر زیادہ قرضے ہیں مشکل حالات ہیں اور عوام پر خرچ کرنے کیلئے پیسہ کم ہے۔ 
عوام کی فلاح و بہبود کیلئے سوچنا اس حوالے سے پالیسیاں بنانا اور اقدامات کرنا‘ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پاکستان پسماندگی اور ترقی پذیری کے درمیان میں ہے۔ اسکے باوجود کہ یہ وسائل سے مالامال ملک ہے جن کو ہر دور میں بے دردی سے لوٹا گیا جس سے کچھ خاندان امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ بلاشبہ ملک میں ایک متوسط طبقہ موجود ہے۔ اسکے ساتھ ہی پسماندگی کے نچلے درجے کو چھونے والے بڑی تعداد میں ہیں جو نانِ جویں تک کو ترستے دیکھے گئے ہیں۔ وسائل کا درست استعمال ہوتا تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے تھوڑا اوپر آجاتے۔ ہماری اشرافیہ علاج معالجہ کیلئے اپنے ہسپتالوں اور ڈاکٹرز پر اعتماد کرنے کے بجائے بیرون ممالک چلی جاتی ہے۔ انکے بچوں کو ملکی تعلیمی ادارے پسند نہیں انکی تعلیم کا اہتمام بھی بیرون ممالک اعلیٰ اور مہنگی ترین درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ جن کے ٹیکسوں سے یہ ’’لاواجب‘‘ اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔ صحت و تعلیم سمیت عوام کو سہولیات فراہم کرنا یا ریلیف دینا فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان تو اسلامی مملکت ہے جس سے اسکی ذمہ داری عوامی فلاح کے حوالے سے دوچند ہو جاتی ہے۔ 
تحریک انصاف کے ایجنڈے میں کرپشن‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کا خاتمہ اور کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب شامل ہے۔ پاکستان میں کرپشن اور مہنگائی کا کہیں نہ کہیں تعلق ضرور بنتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان تو اپنے اقتدار کی نصف مدت کی تکمیل کے بعد بھی مہنگائی و بیروزگاری کا ذمہ دار اپنے پیشرو حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں۔ وہ اسکے ذمہ دار یقیناً ہیں عوام نے ان کو اسی لئے مسترد کرکے تحریک انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے اسے منتخب کیا۔ اس میں بھی شک نہیں کہ کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے اپنے منشور پر حکومت عمل پیرا ہے۔ جو طاقتور طبقات احتساب میں ماخوذ اور مطلوب پائے جاتے ہیںوہ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔ ان سے کیسے نمٹنا ہے یہ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ عام آدمی کا بنیادی مسئلہ مہنگائی سے نجات اور روٹی روزگار کا حصول ہے۔ حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ جس کا اسکی طرف سے برملا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم حکومت اس مقصد کیلئے کوشاں ضرور ہے۔ حکومت کی زیادہ توجہ انتہائی غریب اور بے وسیلہ لوگوں پر ہے۔ اس حوالے سے پناہ گاہیں بنائی گئی اور اب ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ پروگرام کا اجرا کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے اسے قوم کو سہل انگیز بنانے کی ’’کوششوں‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگوں کو بھکاری بنایا جارہا ہے۔ حکومت کا ایسا قطعی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسکی طرف سے یہ کام نیک نیتی سے شروع کیا گیا ہے البتہ کتنا ہی بہتر ہو کہ کسی کو کھانے کیلئے مچھلی دینے کے بجائے اس کو مچھلی پکڑنے والا کانٹا خرید کر دیا جائے جس سے وہ روزگار کے قابل ہو جائے۔ حکومت کی اس طرف بھی توجہ ہے چھوٹے کاروبار کیلئے بھی قرضے دیئے جارہے ہیں۔ 
حکومت کو مہنگائی کے حوالے سے کوششوں کو ثمرآور بنانے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں اب مزید تاخیر خود حکومت کیلئے نقصان کا باعث ہوگی۔ حکومت کیلئے رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔ عام دنوں میں مہنگائی عام آدمی کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ رمضان المبارک میں ذخیرہ اندوز اور گراں فروش لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان مافیاز کی گرفت لازم ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ خود ذاتی حیثیت میں اشیائے خورونوش کے نرخ مانیٹر کرینگے۔ اس سے مہنگائی پر کسی حد تک کنٹرول کی امید کی جا سکتی ہے۔ مگر کتنا بہتر ہو کہ مستقل بنیادوں پر ایک نظام وضع کردیا جائے۔ مہنگائی و گرانی کا ایک سبب رسد اور طلب میں تفاوت بھی ہے۔ رمضان میں کچھ اشیا کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ طلب کے مطابق رسد کو یقینی بناتے ہوئے مافیاز پر کڑی نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ 
وزیراعظم درست کہتے ہیں کہ ملک پر قرضے زیادہ ہیں‘ ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام پر خرچ کرنے کیلئے پیسہ کم ہے۔ حکومت پیشروئوں کے لئے ہوئے قرض مع سود ادا کررہی ہے جس سے قرضوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو کسی دوسری پارٹی کی حکومت بھی آج کی حکومت پر قرضوں میں اضافوں کا الزام عائد کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ قوم نے آپ پر اعتماد کیا ہے پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے اور وسائل کا بے دریغ اور ناجائز استعمال بھی عمران خان حکومت میں رک گیا ہے۔ ملکی وسائل اور کرپٹ لوگوں سے ہونیوالی وصولیوں جو اربوں روپے ہیں‘ قرض سے نجات کیلئے استعمال کیا جائے۔ سابق حکمرانوں کی طرح آج کے حکمران بھی آئی ایم ایف پر تکیہ کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک بڑا قرض دینے والا ادارہ ہے جو اپنی ڈکٹیشن کے ساتھ قرض دیتا ہے جس سے مہنگائی کے طوفانوں میں زیادہ شدت آجاتی ہے۔ آئی ایم ایف سے وابستگی مشکلات میں کمی نہیں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس سے بہرصورت خلاصی پانے کی ضرورت ہے۔ 

مزیدخبریں